کم کارڈیشین کی مدد سے افغان ویمن فٹبال ٹیم برطانیہ پہنچ گئی

کم کارڈیشین نے فضائی طیارہ چارٹر کروایا جس میں 30 سے زائد نوجوان کھلاڑی اور ان کے اہلخانہ موجود تھے جن کی کل تعداد 130 تھی۔

افغان ویمن فٹبال ٹیم جمعرات کو پاکستان سے برطانیہ پہنچ گئی ہے جس میں نیویارک کے ایک یہودی پادری، برطانوی فٹبال کلب اور ہالی ووڈ اداکارہ کم کارڈیشین نے ان کی مدد کی۔

کم کارڈیشین نے فضائی طیارہ چارٹر کروایا جس میں 30 سے زائد نوجوان کھلاڑی اور ان کے اہلخانہ موجود تھے جن کی کل تعداد 130 تھی۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل اور یو اے ای فٹبال ورلڈکپ کی مشترکہ میزبانی کریں گے

افغانستان کی خواتین فٹبال ٹیم خاندانوں کے ہمراہ پاکستان پہنچ گئی

یہ طیارہ لندن کے قریب ایک ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا، برطانیہ میں نئی زندگی کے آغاز سے قبل تمام افغانی دس روز قرنطینہ میں گزاریں گے۔

انگلش پریمیئر لیگ کے فٹبال کلب لیڈز نے افغان ویمن فٹبال ٹیم کی کھلاڑیوں سے تعاون کی پیشکش کی ہے۔

افغانستان میں خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینا طالبان کے خلاف سیاسی مزاحمت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور سینکڑوں کھلاڑی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے باہر جاچکے ہیں۔

افغانستان کی قومی ویمن فٹبال ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل نے کہا کہ مجھے بہت خوشی اور اطمینان ہوا کہ یہ لڑکیاں اور خواتین اب خطرے سے باہر ہیں۔

آسٹریلیا نے افغان ویمن ٹیم کو انخلا میں مدد کی اور یوتھ ٹیم پرتگال میں رہائش اختیار کرچکی ہے۔

ڈیویلپمنٹ ٹیم کی اراکین جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے، وہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئیں اور برطانیہ کے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

بعد ازاں ویزا مسائل میں گھری افغان ویمن ٹیم کو زیدیک ایسوسی ایشن نامی تنظیم نے مدد کی تاکہ وہ برطانیہ کا سفر کرسکیں۔

لیڈز یونائیٹڈ کے  مالک اور اطالوی بزنس مین آنڈریا ریڈریزانی نے افغان وومن فٹبال ٹیم کی کھلاڑیوں اور اہلخانہ کے بحفاظت برطانیہ پہنچنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ اگست میں کابل طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں آنے کے بعد برطانیہ اور دیگر ممالک نے فوری طور پر ہوائی جہاز سے ہزاروں افغانوں کو نکالااس کے باوجود بعد سے لوگ محفوظ مغربی ممالک کا سفر کرنے کی امید میں پڑوسی ممالک  میں پناہ لئے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا کہ  طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی تعلیم اور آزادیوں کو روکنا شروع کیا تو سینکڑوں خواتین ایتھلیٹس افغانستان چھوڑ چکی ہیں۔

متعلقہ تحاریر