عالمی یوم خواتین اور پاکستان میں جنسی ہراسگی کا سب سے بڑا مقدمہ

میشا شفیع کے خلاف ہتکِ عزت کے دعوے میں ملزمہ سمیت دیگر گواہان تاحال اپنے بیانات قلمبند نہیں کروا سکے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین کا دن منایا جاتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنسی ہراسگی مقدمہ آج بھی الزام لگانے والے کے بیان کا منتظر ہے۔ گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف علی ظفر کی جانب سے دائر کیے گئے ہتکِ عزت کے دعوے میں میشا شفیع سمیت دیگر گواہان تاحال اپنے بیانات قلمبند نہیں کروا سکے ہیں۔

8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس دن خواتین بڑے شہروں میں عورت مارچ کے نام پر ریلیاں اور جلوس نکالتی ہیں۔ آج بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں عورت مارچ کی ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا گیا ہے جن میں خواتین خود پر ہونے والے مظالم اور جنسی ہراسگی کے خلاف اپنے حقوق اور دفاع کے طور پر اس دن کو جوش وجذبے سے منارہی ہیں۔

ادھر پاکستان میں اس وقت جنسی ہراسگی کا سب سے بڑا مقدمہ لاہور کی سیشن کورٹ میں گذشتہ ڈھائی سال سے زیر سماعت ہے۔ یہ مقدمہ جنسی ہراسگی کی وجہ سے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ اس کی شہرت کی بڑی وجہ اس کے فریقین بھی ہیں۔ ایک طرف گلوکار علی ظفر ہیں اور دوسری جانب گلوکارہ میشا شفیع ہیں۔ آج سے تقریباً 3 سال قبل 19 اپریل 2018 میں جنسی ہراسانی کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرعلی ظفر پر الزام عائد کیا گیا جس کے بعد گلوکار نے لاہور کی سیشن کورٹ میں میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے جنسی ہراسگی سے متعلق مقدمے میں مدعی نے ہتک عزت کی درخواست پر بیان قلمبند کروا دیا ہے مگر دوسری طرف جنسی ہراسگی کا الزام  لگانے والی مدعالیہ گلوکارہ میشا شفیع سمیت دیگر گواہان کے بیانات قلمبند ہونا تاحال باقی ہیں۔

جنسی ہراسانی کے ہائی پروفائل مقدمے کی آخری سماعت صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سنیچر کے روز یعنی 6 مارچ کو سیشن کورٹ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اظہر اقبال رانجھا کی عدالت میں ہوئی۔ گذشتہ سماعت میں عدالت نے میشا شفیع اور ان کے باقی گواہان کو جرح کے لیے طلب کیا تھا تاہم ہفتہ (6 مارچ) کو اداکارہ صبا حمید اور عفت عمر عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔

عفت عمر نے اپنا بیان میں عدالت میں کیا کہا

جرح کے دوران عفت عمر نے کہا کہ وہ چاہیں گی کہ ان کی بیٹی میشا شفیع کی طرح بنے۔ اداکارہ صبا حمید ان کی دوست اور استاد ہیں۔ عفت عمر نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر علی ظفر کے دائر کردہ ہتک عزت کے دعوے کا فیصلہ آجائے تو وہ تب بھی میشا شفیع کا یقین کریں گی۔

عفت عمر نے اس بات کو مسترد کیا کہ انہوں نے عوامی سطح پر ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ علی ظفر نے ہراساں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ میرا ذاتی خیال ہے اور میرا ماننا ہے کہ علی ظفر نے ہراساں کیا تھا۔‘

گواہ عفت عمر سے علی ظفر کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا الزام لگا کر ثابت کرنا ہوتا ہے؟ جس پر اداکارہ نے کہا کہ جی الزام لگا کر ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ علی ظفر کے وکیل نے سوال کیا کہ علی ظفر جب کوئی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے کیس کے متعلق بات کرتے ہیں، کیا آپ کیس میں فریق ہیں؟ جس پر عفت عمر نے کہا کہ ’میں کیس کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اظہار رائے کا حق رکھتی ہوں۔ شوبز میں ہر کوئی اس معاملے پر بحث کر رہا ہے تو میں بھی شوبز کا حصہ ہوں۔‘

ان الزامات کے علی ظفر کے بچوں پر اثرات سے متعلق علی ظفر کے وکیل کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’علی ظفر ہوں یا میشا شفیع جو بھی جھوٹ کہہ رہا ہے تو لازمی طور پر ان کے بچوں پر مستقبل میں منفی اثر پڑے گا۔‘

عفت عمر نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’گذشتہ سماعت میں کراچی میں شوٹنگ کے باعث شریک نہیں ہوسکی جبکہ آج میری جرح مکمل ہوگئی ہے۔ 4 پیشیوں میں میرا بیان مکمل ہوا ہے۔‘

عفت عمر نے کہا کہ ’ابھی تو علی ظفر کا ہتک عزت کا کیس چل رہا ہے جنسی ہراسگی کا اصل مقدمہ تو ابھی ہونا باقی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کسی خاتون کا اوپن فورم پر نکل کر جنسی ہراسگی کا کہنا بہت بڑی بات ہے۔ اس الزام کے ذریعے علی ظفر ہی نہیں خود بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

عفت عمر نے مزید کہا کہ ’کرونا وباء کا معاملہ ہونے کی وجہ سے میشا شفیع پیش نہیں ہوسکیں۔ کرونا کا پھیلاؤ تھم جائے تو وہ عدالت میں بھی آجائیں گی۔ اس وقت پوری دنیا کے کام ویڈیو لنک کے ذریعے ہو رہے ہیں عدالت میں بیان بھی ویڈیولنک کے ذریعے لیا جاسکتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

میشا شفیع کی گواہ عفت عمر پھر عدالت سے غیرحاضر

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جو بھی فیصلہ آئے گا منظور کریں اب عدالت سے تو نہیں لڑ سکتے۔‘

میشا شفیع کی والدہ صبا حمید کا بیان ریکارڈ نہیں ہوسکا

اداکار و گلوکار علی ظفر کے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’میشا شفیع کو آج بیان کے لیے طلب کیا تھا‘۔ جس پر میشا شفیع کی والدہ صبا حمید کا کہنا تھا کہ ’میشا شفیع کینیڈا میں ہیں۔ کرونا کی وجہ سے آنے میں مشکل ہے۔ عدالت میشا شفیع کا بیان ویڈیو لنک پر ریکارڈ کرلے۔‘

جس پر عدالت نے کہا کہ ’مشکل کا اندازہ ہے لیکن ویڈیو لنک پر بیان کے لیے ایک طریقہ کار ہے۔ ویڈیو لنک کے لیے پہلے درخواست دینا پڑتی ہے۔ جبکہ صبا حمید کی جرح ابھی ہونا باقی ہے جو گذشتہ سماعت میں نہیں ہوسکی ہے۔‘

میشا شفیع کی والدہ صبا حمید نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں انصاف کی پوری امید ہے اور فیصلہ بھی ہمارے حق میں آئے گا۔ سوشل میڈیا پر کسی کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ میشا شفیع جنسی ہراسگی سے گزری ہیں اور انہوں نے اس کا اظہار سوشل میڈیا فورم پر کیا ہے۔ اس کا ہر گز تاثر نہیں کہ میشا نے علی ظفر کو بدنام کیا ہے۔ میشا شفیع نے تو لوگوں سے اس واقعے کا ذکر کیا اور آگاہ کیا جو ان کے ساتھ ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میشا شفیع آج بھی عدالت میں موجود ہیں۔ ہم نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ میشا شفیع کو زوم یا پھر اسکائپ کے ذریعے عدالت کی کارروائی کا حصہ بنایا جائے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جب کیس شروع ہوا تو پتہ نہیں تھا کب تک چلے گا۔ ابھی بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مقدمہ کب تک ختم ہوگا۔‘

میشا شفیع کی ویڈیو لنک کے ذریعے جرح کی درخواست

پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع نے لاہور کی سیشن عدالت سے ویڈیو لنک کے ذریعے گلوکار علی ظفر کے دائر کردہ ہتک عزت کے دعوے پر جرح کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ اور ان کے شوہر کرونا وائرس کی وجہ سے کینیڈا سے پاکستان نہیں آسکتے۔

میشا شفیع کے وکیل ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی نے گلوکارہ کی والدہ اور سینئر اداکارہ صبا حمید کی موجودگی میں عدالت بتایا کہ ’گذشتہ برس مارچ میں ہتک عزت کے دعوے کی سماعت کرنے والے پہلے جج نے میشا شفیع کو بیرون ملک رہتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے گواہان کے بیانات حاصل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔‘

تاہم علی ظفر کے وکیل عمر گل نے ویڈیو لنک کے ذریعے جرح کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میشا شفیع اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے لیے کرونا وائرس کی وبا کے عروج کے دوران پاکستان آسکتی ہیں تو عدالتی کارروائی کے لیے کیوں نہیں آسکتیں؟‘

میشا بوم بوم
Catacut

عمر گل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’کینیڈا سے پاکستان آنے پر کوئی سفری پابندی عائد نہیں ہے۔‘ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی نے کہا تھا کہ ’اعلیٰ عدالتوں نے عدالت کے ذریعے منظور شدہ جگہ پر ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات ریکارڈ کرنے کی اجازت دی ہے۔‘

جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اظہر اقبال رانجھا نے میشا شفیع کے وکیل کو اس ضمن میں باضابطہ درخواست جمع کرنے کا کہا کہ ’عدالت قانون کے مطابق درخواست پر فیصلہ سنائے گی۔‘

علی ظفر کے وکیل کا بیان

علی ظفر کے وکیل عمر طارق گل نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم میشا شفیع سے جرح کا آغاز کرنا چاہتے تھے مگر وہ نہیں آرہیں۔ ہم عدالتی کارروائی کو چلانا چاہتے ہیں تاکہ کیس جلد ازجلد مکمل ہوسکے۔ اس لیے اب عدالت سے کہا کہ جو گواہان موجود ہیں انہیں طلب کیا جائے تاکہ جرح مکمل کی جاسکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’عدالت نے گذشتہ سماعت میں میشا شفیع سمیت 6 گواہان کو ذاتی طور پیش ہونے کا کہا تھا مگر صبا حمید اور عفت عمر صرف 2 گواہان پیش ہوئے۔ عفت عمر کی جرح مکمل ہوگئی ہے مگر باقی گواہان پیش نہیں ہوئے۔ آئندہ پیشی میں 2 گواہان میک اپ آرٹسٹ لینا غنی اور منیجر فرحان علی کو 20 مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔ عدالت نے خود اس بات کو دیکھا ہے کہ میشا سمیت دیگر گواہان کو طلب کیا مگر وہ نہیں آئے۔ میشا شفیع اور ان کے شوہر کے حوالے سے درخواست کی گئی ہے دیکھیں اب عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔‘

ادھر علی ظفر کی وکیل عنبرین قریشی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’علی ظفر نے عدالتی کارروائی کے لیے اپنا امریکا کا سفر منسوخ کیا حالانکہ ان کے پاس تاخیر کا اختیار موجود تھا۔ یہی فرق ہے۔ انہوں نے یہ بھی ریکارڈ پر کہا کہ وہ میشا کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ عدالت میں آئیں۔‘

واضح رہے کہ اپریل 2018 میں میشا شفیع نے ٹوئٹر پر علی ظفر کے خلاف الزام عائد کیا تھا کہ وہ انہیں ایک سے زیادہ مواقع پر جسمانی طور پر ہراساں کرچکے ہیں۔ جواب میں علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔علی ظفر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’میشا شفیع نے 19 اپریل 2018 کو اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ میرے خلاف تحقیر آمیز جملے اور جھوٹے الزامات پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ملزمان کو دفاع کے کئی مواقع دیے گئے لیکن وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزام سے چند ہفتوں قبل کئی جعلی اکاؤنٹس کی جانب سے میرے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا گیا۔‘

میشا شفیع اور علی ظفر کے درمیان جاری اس کیس کو 2 سال مکمل ہونے کو ہیں مگر تاحال کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا اور یہ کیس ملک کا اہم ترین ہتک عزت کا کیس بن چکا ہے۔

متعلقہ تحاریر