محکمہ ریلوے پاکستان کی کارکردگی صفر، عیاشی بھرپور

ریلوے کے اعلیٰ افسران کے سیکریٹریز بھی نقد انعام پانے والوں میں شامل ہیں۔

حکومت پاکستان کے تمام تر دعووں کے باوجود محکمہ ریلوے کی قسمت نہیں بدل سکی۔ سندھ میں محکمہ ریلوے میں درجنوں حادثات کے باوجود من پسند افسران کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔

موجودہ دور حکومت میں پاکستان ریلوے کو مجموعی طور پر 1 کھرب 19 ارب سے زیادہ کے نقصان کا سامنا ہے۔ مسلسل حادثات کے بعد ریلوے کا نظام بہتر بنانے کے بجائے افسران کو نقد انعامات دیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا واقعی محکمہ ریلوے انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے؟

محکمہ ریلوے نے ”اچھی کارکردگی“ پر جنرل مینیجر سمیت دیگر اعلیٰ افسران کو انعامات دیے جانے کی فہرست جاری کردی ہے۔ جنرل مینیجر ریلوے نثار میمن، آئی جی ریلوے عارف نواز، اے جی ایم آصف متین، سلمان صادق انعام پانے والوں میں شامل ہیں جبکہ سکھر ڈویژن میں ہونے والے حادثات کے باوجود ڈویژنل میکنیکل انجینیئر (ڈی ایم ای) محمد ثقلین بھی نقد انعام پانے والوں میں شامل ہیں۔

محکمہ ریلوے پاکستان

نیوز 360 کو موصول ہونے والے دستاویزات کے مطابق ریلوے کے اعلیٰ افسران کے سیکریٹریز بھی نقد انعام پانے والوں میں شامل ہیں۔

محکمہ ریلوے پاکستان کی جانب سے افسران کو نقد انعامات کے نوازے جانے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ سندھ کا محکمہ ریلوے پورے پاکستان میں کارکردگی میں سب سے پیچھے ہے۔ اربوں روپے کا خسارہ ظاہر کرنے والے محکمے میں نقد انعامات کی بارش حیران کن ہے۔ ریلوے سکھر ڈویژن ٹریک کی خراب حالت کے ذمہ دار افسران کو انعامات سے نوازنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کا مزید کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو افسران کو انعامات دیتے ہوئے ان گینگ مین کی یاد کیوں نہیں آئی جو سخت گرمی اور سخت سردی میں ریلوے ٹریک کی مرمت کا کام کرتے ہیں۔ ٹرین چلانے والے ڈرائیورز کو نقد انعامات سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ تباہ حال ٹریک کی نگرانی اور مرمت کرنے والا محنت کش طبقے کو کیوں کسی بھی انعام کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔

پاکستان کے ایک معروف اخبار نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان ریلوے کراچی ڈویژن سمیت سندھ بھر کے 7 ڈویژن کے 21 ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ ملازمین کو تاحال پینشن کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔

سندھ میں ریلوے کے بڑے حادثات

پاکستان میں ٹرین کے جان لیوا اور بڑے حادثات زیادہ تر صوبہ سندھ کے علاقوں میں ہوئے۔ 4 جون 1990 کو پنوں عاقل میں ہونے والے ٹرین حادثے میں 350 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

13 جنوری 2005 کو گھوٹکی کے قریب ہونے والے حادثے میں 134 انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔

11 جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 24 افراد جاں بحق جبکہ 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔

31 اکتوبر 2019 کو رحیم یار خان کے قریب بوگی میں آگ لگنے سے 74 افراد زندہ جل کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

3 نومبر 2016 کو کراچی میں دو مسافر ٹرینوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 21 افراد جاں بحق جبکہ 60 زخمی ہو گئے تھے۔

28 فروری 2020 کو سندھ کے شہر روہڑی میں پاکستان ایکسپریس اور بس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

تازہ ترین حادثہ 7 جون 2021 کو ڈہرکی قریب پیش آیا تھا جہاں ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 65 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

متعلقہ تحاریر