ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کا کیس سست روی کا شکار

پنجاب پولیس نے ایک ہفتے تک کارکردگی دکھاتے ہوئے 400 میں 15 ملزمان کو حراست میں لیا ہے۔

مینار پاکستان پر پیش آنے والے واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کیس کی تفتیش کو ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا مگر ابھی تک نامزد 400 ملزمان میں سے صرف 15 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مینار پاکستان کے سامنے خاتون عائشہ اکرم کو ایک جم غفیر کی جانب سے ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقع کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

خاتون ٹک ٹاکر کے واقعے نے کئی  لڑکیوں  کو زبان  دے  دی 

متعدد ویڈیوز میں چہرے واضح طور پر نظر آنے کے باوجود پولیس نے صرف 35 افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں 20 کو ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ 15 افراد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

پنجاب پولیس کی کارکردگی

14 اگست کو پیش آنےوالے واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے مگر پنجاب پولیس کے جوانوں کی کارکردگی صفر بٹا صفر پر کھڑی ہے ۔ صرف ایک ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ 400 افراد کی جانب سے ہراساں کی گئی خاتون کا ابھی تک میڈیکل ایگزیمینیشن نہیں کرایا گیا ہے۔

مسئلہ

14 اگست والے روز جب ساری قوم جشن آزادی کی خوشیاں منا رہی تھی وہی ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کو عین مینار پاکستان کے سامنے عوامی سطح پر ہراساں کیا گیا۔ لوگوں کے ہجوم نے ان کے کپڑے تار تار کیے اور انہیں ہوا میں اچھالا گیا۔ مگر کوئی اسے بچانے تک نہیں آیا۔

عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ اگر ایک عورت اپنے ملک میں محفوظ نہیں رہ سکتی تو پھر وہ دنیا کے کسی کونے میں محفوظ نہیں رہ سکتی۔

سوشل میڈیا پر نیا تنازع

دوسری جانب متاثرہ خاتون کے خلاف سوشل میڈیا پر الگ سے تحریک شروع ہو گئی ہے ۔ صارفین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ عائشہ اکرم نے مشہور ہونے کے لیے ایک اسٹنٹ استعمال کیا ہے جس میں وہ پوری طرح سے کامیاب رہی ہے۔

نقاد ٹک ٹاکر کی مختلف تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر کے اس کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔

اس خوفناک واقعہ کے مخالفین حکومت سے کارروائی میں تیزی لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد متاثرہ خاتون کے حق میں آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان بنیادی طور پر آزاد پیدا ہوا ہے ۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ جیسے چاہے رہے ، جیسا چاہے لباس پہنے مگر کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کی خواتین اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہنتی ہیں مگر وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ مرد ان پر پل پڑیں۔

متعلقہ تحاریر