ملک کی عزت داؤ پر لگانے والے نامور پاکستانی کھلاڑی

ان کے لئے میزبان ملک کا دورہ منسوخ کرنے کی دھمکی دینا بھی کوئی اہم بات نہیں کیونکہ ان کے سینئیرز اس سے بڑے اور بھیانک کارنامے سر انجام دے کر بھی بچ چکے ہیں۔

 انسان خطا کا پتلا ہے اور کھلاڑی بھی انسان ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں چند ایسے کھلاڑی بھی گزرے ہیں  جن سے ایسی غلطیاں سر زد ہوئیں کہ دیکھنے والا دنگ اور سننے والا سن ہوجاتا تھا۔

ان کھلاڑیوں کی نظر میں ملک کی نمائندگی کرنا معمولی بات ہوکر رہ گئی تھی۔ اور شاید اسی وجہ سے نیوزی لینڈ میں موجود کھلاڑیوں جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا ہے اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہیں۔کیونکہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور آگے بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

ان کے لئے میزبان ملک کا دورہ منسوخ کرنے کی دھمکی دینا بھی کوئی اہم بات نہیں کیونکہ ان کے سینئیرز اس سے بڑے اور بھیانک کارنامے سر انجام دے کر بھی بچ چکے ہیں۔

اس سے پہلے ہمارے کرکٹرز نے ایسا کیا کیا جس سے دورہ ختم ہونے کا خطرہ تو نہیں تھا لیکن شایقین کا دماغی توازن بگڑنے تک کی نوبت ضرور آگئی تھی۔ آئیے ایسے کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی ملک کے باہر برے مہمان اور ملک میں برے میزبان ثابت ہوئے۔ اِس کے علاوہ ان کی حرکت سےدنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی الگ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

پاک نیوزی لینڈ میچز کھٹائی میں پڑ گئے

بار بار ملک کی عزت سے کھیلنے والے ہر دلعزیزشاہد آفریدی

جس طرح جیمز بانڈ 007 اپنے ساتھ لائسنس ٹو کل لے کر گھومتا ہے۔ ویسے ہی بو م بو م شاہد آفریدی اپنے کیرئیرکے دوران لائسنس تو ڈس اپائنٹ لے کر گھومتے تھے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سنہ 2005 کی ہوم سیریز میں انہوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جونہ تو اس سے پہلے کسی نے کیا، اور نہ ہی کوئی ایسا کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ فیصل آباد میں جاری پاکستان اور انگلینڈ کے ٹیسٹ میچ کے دوران  باؤنڈری کے اس پار ایک سلینڈر کا دھماکا ہوا۔ جس کی وجہ سے کھیل روک دیا گیا۔ اور یہی وہ موقع تھا جس کی تاک میں شاہد آفریدی بیٹھے تھے۔

جب سارا میڈیا اور کھلاڑی دھماکے کی نوعیت کا تعین کرنے میں مصروف تھے تب شاہد آفریدی پچ  پر گئے۔ ہلکا پھلکا ڈانس کیا اور وکٹ خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت کریز پر موجود کیون پیٹرسن نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور شور مچایا۔

میچ ریفری نے شاہد آفریدی سے جب اس بارے میں دریافت کیا تو ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس حرکت کے بعد ان پر دو ون ڈے اور ایک ٹیسٹ میچ کی پابندی بھی لگی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام بھی خراب ہوا۔

دو سال بعد سنچورین  میں پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان جاری میچ کے دوران جب شاہد آفریدی آؤٹ ہوکرپویلین واپس جا رہے تھے تو اچانک ایک تماشائی سے الجھ پڑے۔ اور اپنا بیٹ لہراتے ہوئے اس شخص کے چہرے تک لے گئے۔ اس حرکت پر  آئی سی سی نے ان پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر چار ون ڈے انٹرنیشنل میچز کی پابندی لگادی جس کی وجہ سے ورلڈ کپ کے دو میچز میں انہوں نے شرکت نہیں کی۔

تین سال بعد تو شاہد آفریدی نے حد ہی کردی۔ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے ایک ون ڈے میچ میں انہوں نے اسٹیڈیم میں موجود شایقین اور گھروں پر میچ دیکھنے والے تماشائیوں کی موجودگی میں فاسٹ بالرز کی مدد کرنے کے لئے کچھ نیا کرنے کا سوچا۔

پرتھ کے میدان پر جاری میچ کے آخری لمحات میں جب میزبان ٹیم کو 35 گیندوں پر 30 رنز درکار تھے ایمپائرز نے بال کا معائنہ کیا اور بال کی حالت دیکھ کر انہیں کچھ گڑبڑ لگی۔

تھرڈ امپائر سے مکالمے اور ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد پتہ چلا کہ پاکستان ٹیم کے کپتان نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار بال کو اپنے دانتوں سے چبایا تھا۔ تاکہ کھلاڑیوں کو بال سوئنگ کرنے اور وکٹیں لینے میں آسانی ہو۔

اس حرکت کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بن گیا۔ اوپر سے شاہد آفریدی پر دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی پابندی بھی لگی۔

راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کے کارنامے

گزشتہ ہفتے نیوزی لینڈکی حکومت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو واپس بھیجنے کی دھمکی کیا دی راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے ٹیم کو واپس آنے کا مشورہ دے دیا۔ لیکن شاید شعیب اختر یہ بھول گئے کہ اپنے کیرئیر کے دوران انہوں نے کتنی بار ایسے کام کئے جس سے انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کرکٹ کو لطیفہ بنا کر پیش کیا گیا۔

2007 میں ہونے والے پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پہلے ہی میچ سے قبل انہوں نے ساتھی فاسٹ بالر محمد آصف کو بیٹ دے مارا تھا۔ اس حرکت پر نہ صرف انہیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا بلکہ ان پر 5 میچز کی پابندی بھی لگائی گئی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف بیانات دئیے جس کی وجہ سے انہیں کورٹ کچہری کے چکر بھی لگانے پڑے۔

کبھی ان کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آتا کبھی وہ کرفیو توڑنے کے مرتکب پائے جاتے اور کبھی انہیں ٹیم سے یہ کہہ کر ڈراپ کردیا جاتا کہ وہ مکمل فٹ نہیں۔

ایک بار تو ایک پراسرار بیماری کی وجہ سے انہیں ٹور سے واپس بھیجنا پڑا۔ شکر ہے شعیب اختر پاکستان کرکٹ کے معاملات نہیں دیکھتے ورنہ اس وقت قومی کرکٹ ٹیم وطن واپسی کے راستے پر ہوتی۔

جب کپتان سرفراز احمد بھول گئے کہ وہ کہاں کھیل رہے ہیں!

کراچی کی گلیوں میں کرکٹ کھیلنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کھلاڑی کی پہچان اس کے ٹیلنٹ نہیں اس کے حلیے سے ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہی کچھ کراچی بلکہ پاکستان سے باہر کیا جائے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔

یہ بات سابق پاکستانی کپتان سرفراز احمد کو کافی دیر سے سمجھ آئی۔ کراچی میں کسی کو موٹا کسی کو دبلا اور کسی کو کالا کہہ کر مخاطب کرنے والے سیفی نے جب 2019 میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ کے دوران میزبان ٹیم کے آل راؤنڈر اینڈیل پہلوک وایو کو ‘ابے کالے ‘کہہ کر مخاطب کیا تو کمنٹری باکس میں موجود رمیز راجا کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سننے والےابھی شک میں ہی تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔

ایک ایسے ملک میں جہاں گوروں اور کالوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کئی سال جاری رہی۔ جہاں سیاہ فام مقامی افراد کو کئی سال کی جدو جہد کے بعد اپنا اصل مقام ملا۔ وہاں ‘ابے کالے، تیری امی کہاں بیٹھی ہیں؟ آج کیا پڑھوا کے آیا ہے’ کسی بے عزتی سے کم نہیں تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداران نے جنوبی افریقی کرکٹر ہاشم آملہ کے ذریعے معاملے کو رفع دفع کروایا۔ لیکن اگر سرفراز اپنی زبان پر قابو رکھتے تو معاملہ معافی تلافی تک نہ پہنچتا۔ آئی سی سی نے اس واقعے کے بعد سرفراز احمد پر نسلی تعصب سے متعلق قانون کی خلاف ورزی پر چار میچوں کی پابندی عائد کر دی تھی۔

معاملہ محمد آصف  کی معصومیت کا ۔۔۔

جس طرح معصوم لوگوں کا قتل کرنے والے کو سیریل کلر کہتے ہیں۔ مداحوں کے اعتماد کا گلہ گھونٹنے والے کو محمد آصف کہتے ہیں۔ اداکارہ وینا ملک کے ساتھ اسکینڈل ہو یا پھر ساتھی فاسٹ بولر شعیب اختر کے ساتھ جھگڑا محمد آصف نے شایقین کو جتنے خوشی کے لمحات دئیے اس سے کہیں زیادہ دکھ پہنچایا۔

جب جب شعیب اختر پر ممنوعہ ادویات کا شبہ ہوا ساتھ ساتھ محمد آصف کا بھی نام آیا۔ لیکن 2008 میں پہلی انڈین پریمئر لیگ سے واپسی پر دبئی پر وہ اکیلے ہی پکڑے گئے۔ انہیں گرفتار کرنے کی وجہ بنی ان کے بٹوے میں موجود چرس۔ تقریبا 3 ہفتے تک دبئی پولیس کی تحویل میں رہنے والے کھلاڑی نے نا یہ سوچا کہ اس سے ملک کی کتنی بدنامی ہوگی نہ اپنے کیرئیر کا خیال کیا۔

ان سے جب اس بارے میں پوچھا گا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ جڑی بوٹی ان کا بلڈ پریشر قابو میں رکھتی ہے۔

اس سے قبل بھی وہ کئی بار تنازعات کی زد میں آچکے تھے۔ 2007 میں جو ورلڈ کپ ہوا اس کی ٹیم میں محمد آصف اور شعیب اختر جگہ بناتے بناتے رہ گئے۔

کہاگیا کہ دونوں کھلاڑی فٹ نہیں تھے لیکن اگر اب سوچا جائے تو لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا۔ اگر اس وقت ان کے خلاف کاروائی کرلی جاتی تو چند سال بعد انگلینڈ میں انہوں نے جو گل کھلایا شاید پاکستان اس سے بچ جاتا۔ لیکن جیسا منیر نیازی  نے کہا، ہمیشہ دیر کردیتا ہے پی سی بی!

محمد عامر اور معاملہ محض ایک نوبال کا

دس سال قبل محمد عامر کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو کسی بھی وقت سی بھی ٹیم میں کسی بھی مقام پر کھیل بھی سکتے ہیں اور ٹیم کو کامیابی دلا بھی سکتے ہیں۔

لیکن کپتان سلمان بٹ اور ساتھی فاسٹ بالر محمد آصف کے بہکاوے میں آکر اس کھلاڑی نے اپنا کیرئیر داؤ پر لگا کر ایک ایسی نوبال کی جس نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔

قصہ یہیں ختم نہیں ہوا اسکاٹ لینڈ کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ محمد عامر محمد آصف اور کپتان سلمان بٹ نے سٹے باز مظہر مجید کے ساتھ مل کر اپنی طرف سے اسپاٹ فکسنگ کا فول پروف پلان بنایا تھا۔ لیکن جرم ثابت ہونے پر تینوں کرکٹرز پر پابندی لگادی گئی ۔

کپتان سلمان بٹ پر 10 سال اور محمد آصف پر 7 سال کی پابندی لگی جس سے ان کا انٹرنیشنل کیرئیر ختم ہوگیا۔

اعتراف جرم  کرنے اور پولیس حکام کی مدد کرنے کی وجہ سے کم عمر محمد عامر پر 5 سال کی پابندی لگی ج کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں کم بیک کیا اور پاکستان کو آئی سی سی  چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں کامیابی دلائی۔

جب انضمام  الحق کو تماشائی پر غصہ آگیا

عام طور پر انضمام الحق کا شمار پاکستان کے ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو اپنے ٹھنڈے مزاج کی بدولت فیلڈ پر اور فیلڈ کے باہر ہمیشہ مسکراتے ہوئے پائے گئے۔

 لیکن ستمبر 1997 کی ایک شام ان کا ماتھا ایسا گھوما کہ پاکستان بھارت اور کینیڈا تینوں ممالک کے شایقین حیران ہوگئے۔

ہوا کچھ یوں کہ سہارا کپ کے دوسرے میچ کی دوسری اننگز میں جب پاکستانی ٹیم فیلڈنگ کررہی تھی تو ایک شیو کمار نامی بھارتی تماشائی نے میگا فون کے ذریعے انضمام الحق پر فقرے کسنے شروع کر دیے۔

اننگز کے دوران پانی کا وقفہ آیا اور انضمام الحق نے اسٹینڈ پر جانے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ میچ ختم ہوتے ہی ساتھی کھلاڑی محمد حسین سے انضمام الحق نے بیٹ لیا اور شیو کمار پر چڑھ دوڑے۔

اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں کا کہنا تھا کہ شیو کمار انضمام الحق کو آلو آلو کہہ رہا تھا جبکہ انضمام کا کہنا تھا کہ تماشائی نے ان کےمذہب اور ملک کے خلاف فقرے کسے۔

وہ اسے مارنے کی غرض سے اوپر نہیں گئے تھے بلکہ سمجھانے کے لئے گئے تھے پہلا وار تماشائی نے میگا فون سے ان پر کیا تھا جس کے بعد انہوں نے دفاع میں بیٹ لہرایا تھا۔

معاملہ جو بھی تھا آئی سی سی میچ ریفری نے اس حرکت کے بعد انضمام الحق پر 2 میچز کی پابندی لگادی۔ لیکن اس کے بعد کسی بھی تماشائی کی ہمت نہ ہوئی کہ انضمام الحق سے بدتمیزی کرسکے۔

کپتان ، نائب کپتان سمیت 4 کھلاڑی گریناڈا میں گرفتار

اور سب سے آخر میں بات سب سے پرانے قصے کی جس میں بغیر ثبوت 4 کھلاڑیوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم 1993 میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھی کہ ایک دن خبر آئی کہ کپتان وسیم اکرم، نائب کپتان وقار یونس، فاسٹ بالر عاقب جاوید اور لیگ اسپنر مشتاق احمد کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں سے چاروں کھلاڑی ضمانت پر رہا تو ہوگئے لیکن منشیات رکھنے کے الزام کی وجہ سے انہیں کچھ وقت حوالات میں گزارنا پڑا۔

اس وقت نہ تو انٹرنیٹ تھا نہ ہی سوشل میڈیا اس لئے معاملے کے بارے میں لوگوں کو اخبارات سے ہی پتہ چلا۔ کھلاڑیوں پر چرس رکھنے کا الزام تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس وقت ان کے قریب مشکوک لوگ بھی موجود تھے جنہیں  نہ تو گرفتار کیا گیا، نہ ہی ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔

نہ تو چاروں کھلاڑیوں کا ڈوپ ٹیسٹ ہوا تھا اور نہ ہی انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اس کے باوجود مقامی پولیس کا اتنی جلدی حرکت میں آنا کھلاڑیوں کو صفائی کا موقع دئیے بغیر مجرم قرار دینا اور مشکوک لوگوں کو شامل تفتیش نہ کرنا ان سب سے کسی سازش کی بو آتی ہے۔

کیونکہ یہ واقعہ ٹیسٹ سیریز سے قبل اور ون ڈے سیریز کے بعد پیش آیا تھا۔ اس لئے ایک موقع پر لگ رہا تھا جیسے پاکستان کی ٹیم ویسٹ انڈیز سے بغیر ٹیسٹ کھیلے واپس آجائے گی۔

لیکن معاملہ اس سنگینی کی طرف جانے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔البتہ چاروں نامور کھلاڑیوں پر الزام لگنے سے ان کے کیرئیر  پر ایسا داغ لگ گیا جو 27 سال گزرنے کے بعد بھی دھل نہیں  سکا۔

متعلقہ تحاریر