کالعدم تنظیم سے معاہدہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں؟ ارشد شریف

صحافی ارشد شریف نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے نہایت اہم سوال پوچھ لیے، خالد جاوید خان کا تبصرے سے گریز۔

اینکرپرسن اور معروف صحافی ارشد شریف نے اپنے پروگرام میں اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان سے حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد کی صورتحال سے متعلق نہایت اہم سوالات پوچھے۔

ارشد شریف نے 2017 کے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے بات کی۔

یاد رہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کی تھیں کہ ‘مظاہرین جو سڑکوں کا استعمال اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہوئے عوام کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے’۔

ارشد شریف نے اسی نکتے پر اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ 2017 سے لے کر 2021 تک حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں یہ شق شامل تھی کہ حکومت مذکورہ افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی، تو کیا حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہو رہی؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا موقف تھا کہ پنجاب حکومت اس معاملے پر پہلے ہی لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہے اور میں کوئی کمنٹ نہیں کروں گا۔

ارشد شریف نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد پر کالعدم تحریک لبیک کے دھرنے میں موجود شرکا کی جانب سے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کا حکم دے رکھا ہے لیکن حکومت انہی سے مذاکرات بھی کر رہی ہے اور معاہدوں میں اس شق کو بھی ہمیشہ شامل کیا جاتا ہے کہ شرپسند عناصر کے خلاف ریاست کی طرف سے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ معاہدہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی تو نہیں؟ پہلے ہی وزیراعظم عمران خان اور حکومت کو داخلی اور خارجی محاذوں پر ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ ایسا نہ ہو کل کوئی اس پر پورا مقدمہ تیار کرکے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردے کہ عدالت عالیہ کی حکم عدولی کی جارہی ہے۔

متعلقہ تحاریر