پاکستان کی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے خدو خال

عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں اور فضائی آلودگی کے پیش نظر کئی ممالک الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی حمایت کر رہے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں اُنہوں نے نوید سنائی ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔

اُن کے مطابق اِس سے پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے میں بڑی تبدیلی آئے گی اور ایندھن جلانے کے بجائے گاڑیاں الیکٹرک سے چلنے پر منتقل ہو جائیں گی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاہور اور کراچی جیسے شہروں کے ماحول کے لیے یہ الیکٹرک وہیکل پالیسی اہم ہے کیونکہ بڑے شہروں میں 35 فیصد سے زیادہ فضائی آلودگی ٹریفک کی وجہ سے ہے۔ اِس پالیسی کی وجہ سے نا صرف ماحول پر بہتر اثر پڑے گا بلکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔

الیکٹرک وہیکل پالیسی میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکل بنانے والے اداروں کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چند مراعات دی گئی ہیں۔ پالیسی کے مطابق 2030 تک پاکستان کی 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک سے چلنے والی ہوں گی جن کے لیے پہلے سے موجود سی این جی سٹیشنز کو الیکٹرک چارجنگ کی سہولت فراہم کرنے کا پابند کیا جائے گا۔

پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے بڑے اداروں نے اب تک اِس پالیسی پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ البتہ اِس پالیسی پر عمل درآمد کرنا اُن کے لیے لازمی ہوگا۔ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں اور فضائی آلودگی کے پیش نظر کئی ممالک الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی حمایت کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی ڈاکٹر نے کرونا کی تشخیصی ایپ متعارف کرادی

الیکٹرک گاڑیاں

پاکستان میں الیکٹرک وہیکل بنانے والا ادارہ موجود ہے؟

ہائر پاکستان کے سربراہ اور پاکستان سپر لیگ کی کرکٹ ٹیم پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی چند ماہ سے پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل کے بارے میں ٹوئٹ کر رہےہیں۔ اب اُنہوں نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں وہ صارفین کو ایم جی زیڈ ایس الیکٹرک وہیکل بک کرانے کی دعوت دے رہےہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں زیادہ تر کار ساز ادارے گاڑیوں کی اسمبلنگ کرتے ہیں یعنی انجن سمیت اُن کے پرزے درآمد کر کے اُنہیں پاکستان میں گاڑیوں کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

ایم جی نامی ادارے نے بھی اِس پالیسی کی کابینہ سےہ منظوری کے بعد اشتہاری مہم میں تیزی لائی ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان میں الیکٹرک بائکس بنانے والے ادارے بھی چند ماہ کے دوران سامنے آئے ہیں۔

اُدھر وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے بتایا ہے کہ’الیکٹرک گاڑیوں کا خرچہ ایک تہائی ہوتا ہے‘ جبکہ حکومت اس کے فروغ سے تیل کا امپورٹ بل کم کرنا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ابتدائی مرحلے کے لیے استعمال شدہ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے۔

الیکٹرک وہیکل پالیسی 2030 کے اہداف

  1. آئندہ 4 سالوں میں ایک لاکھ گاڑیوں کو برقی ٹیکنالوجی پر لایا جائے گا۔
  2. اسی عرصے کے دوران 5 لاکھ موٹر سائیکل اور رکشے بجلی پر چلیں گے۔
  3. الیکٹرک وہیکلز کے پرزے اور بیٹریوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی صرف ایک فیصد ہوگی۔
  4. پاکستان میں مکمل طور پر بننے والی الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔
  5. پاکستان میں بننے والی الیکٹرک وہیکلز پر کوئی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس نہیں ہوگا۔ ان کے لیے خاص رجسٹریشن پلیٹس متعارف کروائی جائیں گی۔
  6. الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے اسپیشل اکنامک زونز بنائے جائیں گے۔

پاکستان کے کار ساز اداروں کا کہنا ہے کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری سے قبل اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تاہم اب تک اِن کار ساز اداروں نے اِس پالیسی کے حق یا مخالفت میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

متعلقہ تحاریر