قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ بلانا حکومت کا امتحان

نیوز360 کو حاصل ہونے والے دستاویز کے مطابق 10 دسمبر کو قومی اسمبلی کی جانب سے اجلاس بلانے کے لیے وزارت پارلیمانی امور کو جو خط لکھا گیا تھا اُس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ این سی او سی سے اجلاس کے لیے رائے لی جائے۔

کرونا کی وباء اور حزبِ اختلاف کے عدم تعاون کے اعلان کے سبب حکومت مشکل میں پھنس گئی ہے اور اُسے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پارلیمانی سال مکمل کرنے لئے مزید 107دن اجلاس بلانا آئین کے تحت ضروری ہے۔

رواں پارلیمانی سال کے دوران گزشتہ پانچ ماہ میں صرف 23 دن اجلاس ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کے ذرائع نے نیوز360 کو بتایا کہ ہر پارلیمانی برس میں 130 دن اجلاس منعقد ہونا آئینی ضرورت ہے جبکہ رواں برس پارلیمانی سال مکمل ہونے سے قبل 107 دن اجلاس منعقد کرنا ضروری ہے۔

اسپیکر نےقومی اسمبلی نے اجلاس نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے رہنما اصولوں سے مشروط کردیا تھا۔

نیوز360 کو حاصل ہونے والے دستاویز کے مطابق 10 دسمبر کو قومی اسمبلی کی جانب سے اجلاس بلانے کے لیے وزارت پارلیمانی امور کو جو خط لکھا گیا تھا اُس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ این سی او سی سے اجلاس کے لیے رائے لی جائے۔ مگر قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق وزارت پارلیمانی امور نے تاحال جواب نہیں دیا ہے۔

اس طرح رواں ماہ 19 جنوری تک اجلاس بلانا ممکن نہیں رہا۔ کیونکہ پی ڈی ایم نے 19 جنوری کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے درمیان اس معاملے پر ملاقات بھی ہوئی تھی تاہم کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے تناظر میں وفاقی وزراء کا مشاورتی اجلاس بلایا تھا جس میں پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود، چیف وہیپ ملک عامر ڈوگر، وزیر مملکت علی محمد خان اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے شرکت کی تھی۔

اُس اجلاس میں طے پایا تھا کہ اس معاملے پر وزیراعظم سے رہنمائی لی جائے گی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

براڈشیٹ نیا پانامہ یا میمو گیٹ ثابت ہوسکتا ہے؟

قومی اسمبلی کا اجلاس

 اسپیکر کی ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کرونا کی موجودہ صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے لائحہ عمل  مرتب کیا جائے گا۔ وفاقی وزرا کو بھی حزبِ مخالف کو منانے کا ٹاسک دیا گیا تھا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزرا سے مشاورت کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ بلانے  کے لئے حزِب مخالف سے رابطے شروع کئے تھے اوراس حوالے سے ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے ٹیلی فونک رابطے کئے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنائیں۔ کیونکہ آئین کے مطابق ایک پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کا 130 دن پورے کرنا لازمی ہے۔ جس پر اپوزیشن نے اسپیکر کے جانبدارانہ کردار اور اپوزیشن لیڈر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

حزبِ اختلاف نے واضح کیا تھا کہ اسپیکر کے رویے میں تبدیلی تک وہ تعاون نہیں کریں گے۔گزشتہ پارلیمانی سال کی تکمیل میں بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پارلیمانی سال کے اختتام سے قبل اپوزیشن کے تعاون سے قومی اسمبلی کے طویل اجلاس بلانے پڑے تھے۔

متعلقہ تحاریر