سیاسی جماعتیں بمقابلہ ٹی وی چینلز نتیجہ تشدد

ایک ہی دن میں جنگ اور جیو کے دفتر پر حملہ اور سماء کے نمائندے پر تشدد کے باوجود بھی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔

پاکستان کے معاشی حب کہے جانے والے شہر کراچی میں قائم جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر سندھی قوم پرست جماعت نے حملہ کیا ہے۔ مظاہرین نے واک تھرو گیٹ اور مرکزی دروازہ توڑ دیا اور عملے پر تشدد بھی کیا۔ دوسری جانب پولیس نے نیوز چینل ‘سماء’ کے سکھر کے نمائندے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

نیوز 360 کے نامہ نگار عبدالقادر منگریو کے مطابق مظاہرین نے جنگ اور جیو کے دفتر پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد دھرنا بھی دیا اور مطالبہ کیا کہ چینل کے پروگرام میں سندھیوں سے متعلق کی جانے والی متنازع بات کی وضاحت کی جائے۔

 جیو نیوز کے پروگرام ‘خبرناک’ کے میزبان ارشاد بھٹی نے گزشتہ ماہ ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ ‘بھوکے ننگے لوگ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے عوامی اجتماعات میں شریک ہیں۔’ یہ پروگرام ریکارڈ کر کے نشر کیا جاتا ہے لیکن چینل نے اس حصے کو نکالے بغیر ہی نشر کردیا تھا اور بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ خبرناک کے نشر مکرر اور سوشل میڈیا پر بھی اُس غلطی کو درست نہیں کیا گیا۔

نیوز 360 نے اس معاملے کو اجاگر کیا تھا۔

جنگ گروپ کے انگریزی اخبار اور نیوز چینل کی غلطیوں پر عوامی تنقید

اتوار کے روز کیے جانے والے حملے اور دھرنے میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ ‘خبرناک میں استعمال ہونے والی زبان سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اس پر چینل کی انتظامیہ کو معافی مانگنی چاہیے۔’ْ

تاہم اب ارشاد بھٹی نے اپے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ‘جس طرح مجھے خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پیارے ہیں اسی طرح سندھ اور سندھی بھی میرے وجود کا حصہ ہیں۔’

دوسری جانب کراچی پریس کلب کی مجلس عاملہ نے اس واقعے کا فوری نوٹس لیا ہے۔ پریس کلب نے سینئر صحافی مشتاق سرکی کی ممبرشپ معطل کر کے اظہار وجوہ نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اس مظاہرے میں پیش پیش تھے۔ پریس کلب کی مجلس عاملہ کا کہنا ہے کہ ‘صحافی ہمیشہ غیرجانبدار ہوتا ہے اور اپنے قلم کے ذریعے مسائل پر بات کرتا ہے۔ کسی بھی صحافی کی جانب سے مظاہرے کے نام پر میڈیا کے ادارے میں توڑ پھوڑ جیسے اقدامات ناقابل برداشت ہیں۔’

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے واقعے کی مذمت کی ہے۔

 سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں سینئر صحافی عمر قریشی نے لکھا کہ ‘چینل پر حملے کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن سینئر تجزیہ کار کے ایک صوبے کے لوگوں کو ‘بھوکے اور ننگے’ کہنے کے خلاف کیا کارروائی کی گئی تھی؟

اُدھر اتوار کے ہی روز ایک اور نجی نیوز چینل ‘سماء’ کے سکھر میں نامہ نگار اور ان کی اہلیہ کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سماء کا محمد علی سدپارہ کی گمشدگی کے دوران کوہ پیمائی پر مذاق

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں ‘سماء نیوز’ سے وابستہ صحافی عدیل احسان نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سندھ کے کسی علاقے میں پولیس نے چند جھونپڑیوں میں چھاپہ مار کر کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

عدیل احسان نے واقعے کی تفصیلا ت بتاتے ہوئے لکھا کہ ‘شکارپور اور سکھر کی پولیس نے بغیر وارنٹ سماء کے نمائندے کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ پولیس نے سماء کے نمائندے سے پوچھا ساحل جوگی تم ہی ہو؟ تصدیق ہونے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے موبائل فون بھی چھین لیا۔’

پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج نے اس واقعے کی مذمت کی۔

گذشتہ برس وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ ‘سماء کو غلط خبروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔’ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پیمرا نے سماء پر جرمانہ عائد کردیا ہے۔

گذ شتہ برس جب کراچی میں بارشیں ہوئیں تو سماء نے یوٹیوب سے 6 سال قبل ہونے والی مون سون بارشوں کی ویڈیو ڈاؤنلوڈ کر کے ہیڈلائن میں چلائی تھی جس کے بعد وزیر تعلیم سندھ نے ٹوئٹر پر ویڈیو جاری کر کے سماء کو بےنقاب کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ‘پی ٹی آئی کے سماء ٹی وی کا کراچی کی بارشوں پر جھوٹ دیکھیں۔’

اتور کے روز ایک ہی دن میں ایک صحافتی ادارے پر حملہ اور دوسرے کے نمائندے پر پولیس کا تشدد ہونے کے باوجود سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے جیو کے دفتر پر توڑ پھوڑ اور حملے کا نوٹس لیا اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن جب توڑ پھوڑ کی جارہی تھی اس وقت کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

اِس صورتحال میں واضح ہوتا ہے نیوز چینلز اور حکومت اپنے اپنے مفادات کے لیے آمنے سامنے ہیں اور دونوں بظاہر مختلف انتہاؤں پر ہیں جس میں تشدد کرنا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ ٹی وی چینلز اپنے ایجنڈے کو کسی سیاسی جماعت کی مخالفت اور کسی کی حمایت میں چلانے پر انتہا کو چھو لیتے ہیں اور صحافتی اقدار کو پامال کردیتے ہیں تو سیاسی جماعتیں اُن کے دفاتر اور نمائندوں پر حملوں اور کارروائیوں میں دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر