‘اسٹیل ملز سندھ حکومت کی ملکیت ہے’پیپلز پارٹی

2008 میں پیپلزپارٹی نے ادارے میں بے شمار بھرتیاں کی تھیں۔ آج بھی ایک آسامی پر 4 سے 5 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت اِسے ادارے کی تباہی کی وجہ بتاتی ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم و محنت سعید غنی نے پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے ملازمین کی برطرفی کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔ 

اسٹیل ملز کے حوالے سے سعید غنی نے کہا کہ ادارے کی زمین سندھ حکومت کی ملکیت ہے جس پر مافیا کی نظر ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے معیشت بہتر کی۔ لیکن اسٹیل ملز بند کرنے سے خسارے میں چلی گئی۔ حکومت نے اسٹیل ملزکو چلانے کے لیے کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ اسٹیل ملز کو سندھ حکومت چلا بھی سکتی ہے اوراس کو فائدہ مند بھی بنا سکتی ہے۔ 4 رکنی کمیٹی کو ادارے کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 28 نومبر کو اسٹیل ملز کے 4 ہزار 544 ملازمین کو برطرف کردیا گیا تھا۔ ترجمان پاکستان اسٹیل ملز کے مطابق برطرف کیے جانے والے ملازمین کی فہرست تیار کی گئی تھی۔ گروپ 2-3-4 کے ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے جن میں ٹیچرز، فائرمین، ڈرائیورز، آپریٹرزاورسکیورٹی اسٹاف شامل ہیں۔

 وفاقی کابینہ نے رواں برس 9 جون کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ ای سی سی نے 3 جون کو پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی سفارش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین برطرف

اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک پیکج کے تحت اوسطاً 23 لاکھ فی ملازم دینے کا اعلان کیا تھا۔ جس کی زیادہ حد 70 سے 80 لاکھ بھی ہے۔

حماد اظہر کے مطابق اب تک اسٹیل ملز کے ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں کی مد 55 ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔ جبکہ بند اسٹیل ملز کے ملازمین کوآج بھی 75 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز کوایک عرصے سے ‘سفید ہاتھی’ کہا جارہا ہے۔ اسٹیل ملز کو 1973ء میں 25 ارب کی لاگت سے بنایا گیا تھا۔ ادارے نے 80 اور 90 کی دہائی میں منافع کمایا لیکن 2009ء سے خسارے کا شکار ہے۔

پندرہ جولائی کو حماد اظہر نے بتایا تھا کہ ادارے کا خسارہ 225 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

اسٹیل ملز کو خسارے میں ڈالنے کی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے ادارے میں بے شمار بھرتیاں کی تھیں۔ آج بھی ایک آسامی پر 4 سے 5 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان ملازمین کی تنخواہ ادارے کی ذمہ داری ہے جو اب بوجھ بن چکی ہے۔

اسی وجہ سے اسٹیل ملز کو 2015ء میں (ن) لیگ کے دورحکومت میں بند کردیا گیا تھا۔

سن 2006ء میں سابق صدرجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورحکومت میں ادارہ منافع کمانے لگا تھا۔ اسی دوران ادارے کی نجکاری کی کوشش پر معاملہ عدالت جا پہنچا تھا۔ کئی اداروں نے اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور تین اداروں کے ایک کنسورشیم نے اسے خرید بھی لیا تھا۔ لیکن سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے اس وقت اس سودے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اسٹیل ملزکی نجکاری کے دوران بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور ادارے کو کوڑیوں کے مول فروخت کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پام کی کاشت کے لیے لیبارٹری قائم کی جائے گی

واضح رہے کہ 15 مئی 2012ء میں سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی انتظامیہ کے دیانتدار اور منجھے ہوئے افسران کی ایک ٹیم بنا کر اِس معاملے کی تحقیقات کریں۔ اور مالی سال 2008-2009 میں 26 ارب روپے سے زائد کے نقصانات کی میگا کرپشن کی تحقیقات کریں۔

نیب کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس مشق کو تین ماہ کی مدت میں مکمل کرے۔ ساتھ ہی تحقیقات میں پیشرفت کے بارے میں رپورٹ پیش کرے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے کیونکہ وہ اسٹیل ملز کیس میں مداخلت کر رہے تھے۔

اسی دوران ایک قابل بھروسہ آڈٹ فرم کے ذریعے کی جانے والی فرانزک آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز شدید بدعنوانی کا شکار ہوگئی تھی۔ رپورٹ میں کے مطابق کاروباری نقصانات 4 ارب 58 کروڑ روپے، بدعنوانی کے باعث نقصانات 9۔99 ارب روپے اور بدانتظامی اور غفلت کی وجہ سے ہونے والے نقصان 11.84 بلین روپے تک پہنچ گئے تھے۔

سپریم کورٹ کے اکم نامے کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ عارضی ملازمین کو مستقل کیا تھا جن میں اجرت دہندگان اور کانٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے شامل تھے۔ اس کے علاوہ حکومت نے عام انتخابات 2013ء سے محض چند ماہ قبل ہی وفاقی سطح پر 20 ہزار سے زیادہ عہدوں پر بھرتیوں کا عمل شروع کیا تھا۔

وزارت داخلہ نے اشتہار دیا تھا جس کے مطابق وزارت اور اس سے منسلک محکموں، ماتحت دفاتر، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج میں بھرتی کے لیے 8 ہزار 816 خالی آسامیوں پر بھرتی کی جانی تھی۔

متعلقہ تحاریر