سعودی عرب میں بھی کرسمس کی تیاریاں

سعودی تخت کے وارث نے ایک مرتبہ طاقتور مذہبی پولیس کے اثر و رسوخ کو روک لیا ہے۔ اُنہوں نے موسیقی کی مخلوط محافل، سینما گھروں اور دیگر تفریح گاہوں کی تعمیر کی اجازت دی ہے۔

 سعودی عرب جو دیگر مذاہب کی پیروی کے بارے میں قدامت پسند قوانین کے لیے جانا جاتا ہے لیکن اب وہاں کرسمس کو پوری جوش و جذبے سے مناتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ سعودی عرب میں کرسمس سے متعلق مصنوعات کی فروخت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو ملک میں بسنے والے تمام عیسائیوں کے لیے ایک مثبت تبدیلی ہے۔

اِس اقدام کا سب نے خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قدامت پسند مملکت کو ایک ‘کھلے اور اعتدال پسند اسلام’ کی طرف راغب کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

کئی عشروں سے کرسمس کی فروخت بڑی حد تک زیرزمین رہی اور فلپائن، لبنان اور دیگر ممالک کے عیسائی چھپ چھپا کر یا پھر غیرملکیوں کی اکثریت والے اضلاع میں اپنا مذہبی تہوار مناتے تھے۔

2018 میں سعودی کسٹم حکام نے ٹوئٹر پر متنبہ کیا تھا کہ ملک میں کرسمس کے درختوں کو ممنوع قرار دیا گیا تھا جس پر دنیا بھر میں کافی تنقید ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ایک انتہا سے دوسری انتہا

بادشاہت کے اصولوں پر چلائے جانے والے ملک سعودی عرب پر عرصہ دراز سے پوری دنیا میں اس کی انتہائی قدامت پسند مذہبی ذہنیت کا الزام عائد کرتی رہی ہے۔ لیکن اب اُس میں آہستہ آہستہ دوسرے مذاہب کو قبول کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں اس نے ویٹیکن سے منسلک عہدیداروں کے ساتھ ساتھ یہودی شخصیات کی بھی میزبانی کی ہے۔

سعودی تخت کے وارث نے ایک مرتبہ طاقتور مذہبی پولیس کے اثر و رسوخ کو روک لیا ہے۔ اُنہوں نے موسیقی کی مخلوط محافل، سینما گھروں اور دیگر تفریح گاہوں کی تعمیر کی اجازت دی ہے۔

شہزادہ سلمان نے قدامت پسند قوانین میں نرمی کی ہے اور ان اقدامات کو مقامی لوگوں میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ سعودی عرب میں خوتین کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

تیل کی دولت سے مالامال ملک جو تیل فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ اب معاشی ترقی کے لیے ملک کو مستقبل میں سیاحت کے مرکز کے طور پر متعارف کرانا چاہتا ہے۔

شہزادہ سلمان بھی اپنے ملک میں زیادہ آزاد خیال ڈھانچے لانے کے خواہشمند ہیں۔

سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں ایسی زبردست تبدیلیاں لانا ایک ناممکن کام سمجھا جاتا تھا لیکن اب بظاہر سب تبدیل ہو رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر