ڈبلیو ایچ او نے چینی ویکسین کے بجائے امریکی ویکسین کیوں منظور کی؟

نومبر تک سائنوفارم کی ویکسین تقریباً 10 لاکھ افراد کو لگ چکی تھی جس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں

چینی ساختہ کرونا ویکسین کے خاطرخواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ لیکن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کی تیار کردہ کرونا ویکسین کو مستند قرار دیتے ہوئے استعمال کی منظوری دی ہے۔

کرونا کی وبا چین سے شروع ہوئی تھی ۔ کرونا وائرس کا پہلا کیس چین میں نومبر 2019 میں رپورٹ ہوا۔ جس کے بعد یہ بیماری تیزی سے پھیلنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین کا رابطہ دنیا بھر سے منقتع کردیا گیا۔ چین نے ہنگامی اقدامات کرکے وائرس پر بڑی حد تک قابو پالیا۔ اس دوارن ویکسین کی تیاری کا عمل بھی جاری رہا۔

جولائی میں چینی حکام نے دواساز کمپنی سینوویک اور سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسینز کو ہنگامی بنیادوں پراستعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ چین میں نومبر 2020 تک سائنوفارم کی ویکسین تقریباً 10 لاکھ افراد کو لگ چکی تھی۔ جس کے مثبت اثرات بھی سامنے آنے لگے تھے۔ چین میں کرونا کیسز کی تعداد گھٹنے لگی تھی۔ کرونا سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چین اب 82 نمبر پرموجود ہے۔ اعداد شمار کی جانب دیکھیں تو چین میں اب تک کرونا کے تقریباً 88 ہزار کیسزرپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سے 82 ہزارسے زائد صحتیاب بھی ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جماعت اسلامی ہند کی کرونا ویکسین کی حمایت

چین کی حکومت نے سائنوفارم کی ویکسین کے مثبت نتائج کے باعث عام استعمال کی منظوری دے دی ۔ دوسری جانب سینوویک ویکسین آزمائش کے تیسرے مرحلے میں ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کی سائنوفارم ویکسین کے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ٹرائلز ہورہے ہیں۔ جس کے بعد پاکستان کی جانب سے ویکسین کی 12 لاکھ خوراکیں خریدنے کا فیصلہ سامنے آیا۔

چین کی تیار کردہ کرونا ویکسین کے حوالے سے تفصیلات اور اعداد و شمار کو دیکھیں تو عالمی ادارہ صحت کی فائزرویکسین کی منظوری کے فیصلے پرسوالیہ نشان بنتا ہے۔  ڈبلیو ایچ او نے ایک ایسی ویکسین جس کے کئی مہینوں سے بہتر نتائج دیکھے جارہے ہیں اسے چھوڑ کر فائزر کو مستند قرار کیوں دیا؟ اس بارے میں ادارے نے اب تک کوئی وضاحت نہیں دی ہے ۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے