ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی تفتیش سے غیرمطمئن
جے آئی ٹی کے سربراہ اویس احمد نے کہا کہ کینیا کے حکام نے ٹیم کے ساتھ تعاون نہیں ، جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے دوبارہ ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کے روز کینیا میں قتل کیے جانے والے معروف صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے ازخود نوٹس لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
الیکشن کمیشن کا پنجاب میں عام انتخابات سے متعلق گورنر سے ملاقات کا فیصلہ
شوکت ترین پر بغاوت کا مقدمہ درج، ایف آئی اے گرفتار کرنے امریکا جائے گی؟
آج کی سماعت کے لیے عدالت نے سیکریٹری داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، اٹارنی جنرل پاکستان، سیکریٹری خارجہ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، سیکرٹری اطلاعات شیخ محمود احمد، اے او آر عادل عزیز قاضی، اے ایس سی محمد سعد عمر بٹر، اے ایس سی چوہدری اختر علی، اے او آر شازیب مسعود، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو نوٹس جاری کیے تھے۔ ۔
یاد رہے کہ اینکر پرسن ارشد شریف کو گزشتہ سال 23 اکتوبر کو کینیا کی پولیس نے "غلط شناخت” کے معاملے پر ، اس وقت گولی مار کر قتل کردیا تھا جب وہ کینیا کے شہر ماگاڈی سے دارالحکومت نیروبی جا رہے تھے۔
کینیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ صحافی ارشد شریف کو غلط شناخت کی بنا پر گولی ماری گئی تھی ، تاہم بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات نے پولیس کے ان دعوؤں کی تردید کردی تھی۔
8 دسمبر 2022 کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک نئی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
نئی جے آئی ٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس، آئی بی، ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے ارکان شامل ہیں۔ ارکان میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) انٹیلی جنس برانچ ساجد کیانی، ایف آئی اے کے وقار الدین سید، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز اویس احمد، ملٹری انٹیلی جنس سے مرتضیٰ افضل اور آئی ایس آئی کے محمد اسلم شامل ہیں۔
دوران سماعت جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف قتل کیس میں کینیا کے حکام نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ، جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا۔
جے آئی کے سربراہ اویس احمد نے اپنی دوسری پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی سرزنش کی۔
سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جس میں جے آئی ٹی کے سربراہ اویس احمد نے دوسری پیش رفت رپورٹ جمع کروا دی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سربراہ جے آئی ٹی کی سرزنش کی گئی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا جو ذمہ داری آپ کے ذمے لگائی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں؟ جس پر اویس احمد کا کہنا تھا ہم نے کینیا کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
جسٹس مظاہر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں۔ جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کینیا کے حکام نے شواہد تک رسائی نہیں دی۔
اس پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ شواہد کی بات تو ٹرائل کے وقت سامنے آئے گی مواد کیا جمع کیا وہ بتائیں؟ اس پر اویس احمد کا کہنا تھا کہ ارشد شریف قتل کے حوالے سے کینیا سے کوئی ٹھوس مواد ہاتھ نہیں لگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف کا موبائل فون اور دیگر سامان کہاں ہے؟ سربراہ جے آئی ٹی اویس احمد نے جواب دیا کہ ارشد شریف کا موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہے، ارشد شریف کا باقی سامان موصول ہوچکا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ایک مرتبہ پوچھا کہ جے آئی ٹی کے باقی ارکان کہاں ہیں؟ جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ اویس احمد کا کہنا تھا کہ تین اراکین عدالت میں موجود ہیں۔ جس پر جسٹس مظاہر نقوی بولے کہ باقی ارکان کیوں نہیں آئے؟ کیا تفتیشی ٹیم کا کام نہیں کہ پیش ہو؟
دوران سماعت سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے پبلک کی؟ پتا کریں کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دفتر خارجہ کو کینین وزیر خارجہ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی، یقین دہانی کے باوجود کینیا میں قتل کی جائے وقوع پر اسپیشل جے آئی ٹی کو کیوں جانے نہیں دیا گیا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف قتل کے تین زاویے ہیں، ارشد شریف کو پاکستان سے بھاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا تحقیقات ہوئیں کہ ارشد شریف کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ کیا پتا لگایا گیا کہ ارشد شریف کو ایسا کیا دیکھایا گیا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے؟ جب تمام کڑیاں جڑیں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ ارشد شریف سے جان کون چھڑوانا چاہتا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جے آئی ٹی کو ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے مکمل طور طلب کرلی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کینیا میں اپنے قانونی حقوق کی معلومات لیں، وکیل کریں ، جو کرنا ہے وہ کریں مگر حقائق تک پہنچیں۔