برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بورس جانسن اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم مخالفت میں پڑنے والے 148 ووٹوں نے ان کے اعتماد کو توڑ کررکھ دیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تحریک عدم اعتماد کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ، تاہم کنزرویٹو پارٹی کے 359 میں سے 148 قانون سازوں کی بغاوت نے ان کی اتھارٹی کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
بورس جانسن کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں کے کم از کم 180 ووٹ درکار تھے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اپنے قانون سازوں میں سے 59٪ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ، جو کہ ان کی پیشرو تھریسا مے کو 2018 میں اعتماد کے ووٹ میں دی گئی حمایت سے کم ہے۔
یہ بھی پڑھیے
بھارت میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہونے لگے
شانِ رسولﷺ میں گستاخی، بھارت کو مسلم امہ کے غصے کا سامنا
2019 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے وزیر اعظم بورس جانسن پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے خصوصاً جب انہوں نے اپنے عملے کے ساتھ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر اور رہائش گاہ میں الکحل سے بھرپور پارٹیاں منعقد کی تھیں، جبکہ اس وقت برطانیہ سخت COVID-19 لاک ڈاؤن میں تھا۔
الکحل سے بھرپور پارٹی کرنے پر ان کی پارٹی کی ایک بڑی تعداد ان کے خلاف ہو گئی تھی ، ایسے میں انہوں بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ، اور انہیں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر مجبور کردیا ، جو کبھی ناقابل تسخیر نظر آتے تھے۔
کووڈ 19 کے دوران شراب سے بھرپور پارٹی کرنے پر کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد ان کے خلاف ہو گئی تھی ۔
ایک سابق اتحادی نے وزیر اعظم بورس جانسن پر اقتدار میں رہ کر ووٹرز اور پارٹی رہنماؤں کی توہین کرنے کا الزام لگایا تھا۔
جیسی نارمن، ایک سابق جونیئر وزیر نے ووٹ آف نو کنفیڈنس موو دے قبل کہا کہ "آپ نے کووڈ کے دوران 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں آرام دہ اور پرسکون قانون شکنی کے کلچر کو فروغ دیا تھا۔”
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں شراب اور شباب کی محفل سجانے پر جانسن کے انسداد بدعنوانی کے سربراہ جان پینروز نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
درجنوں کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ 57 سالہ بورس جانسن برطانیہ پر حکومت کرنے کا اپنا حق کھو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت کساد بازاری، ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے اور دارالحکومت لندن میں ہڑتال سے متاثرہ سفری افراتفری کے خطرے کا سامنا ہے۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے کچھ قبل بورس جانسن نے اپنی پارٹی کے قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ روایتی قدامت پسند پالیسیوں سے اجتناب برتتے ہوئے ٹیکس ریفارمز کریں گے اور عوام کو سہولت دینے کے لیے ٹیکسز میں بھی کمی کریں گے۔
برطانوی سیاست اور تبصرہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بورس جانسن نے 2019 میں قبل از وقت عام انتخابات کرا کے کنزرویٹو پارٹی کو زبردست پارلیمانی اکثریت دلائی تھی ، بورس جانسن کے اچانک عروج نے ایک بار سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن ان کی سیاسی قسمت کا تیزی سے الٹ جانا اس سے بھی خطرناک ہے۔
ان کا کہنا ہے یہ برطانوی سیاست کی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی کیونکہ دائیں بازو کی ٹوری پارٹی نے ایسی نشستیں حاصل کیں جو تاریخی طور پر بائیں بازو کی لیبر پارٹی کے حصے میں آتی تھیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے تین سال سے بھی کم عرصے کے بعد، بورس جانسن کو اپنی ہی پارٹی کی جانب سے عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑا ، سابق اتحادیوں نے کہا کہ کئی اسکینڈلز میں ان کا برتاؤ "ووٹر کی توہین کرتا دکھائی دیتا ہے۔” اگرچہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئے، لیکن مخالفت میں آنے والے 148 ووٹوں نے ان کے اعتماد کو توڑ کررکھ دیا ہے۔