پی ایم ہاؤس سے سائفر کی چوری، 22 اپریل کو این ایس سی نے کون سا سائفر دیکھا تھا؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے 22 اپریل کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں اگر سائفر موجود تھا تو اب کیسے غائب ہوگیا اور اگر غائب ہوہی گیا ہے تو اس کا جواب تو موجودہ وزیراعظم شہباز شریف سے پوچھا جانا چاہیے۔
مخلوط حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر اپنے سیاسی فائدے کے لیے سفارتی کیبل (سائفر) کے مواد میں ہیرا پھیری کرنے اور وزیر اعظم آفس کے ریکارڈ سے چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 22 اپریل کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں سائفر موجود تھا ، جب 22 اپریل تک سائفر ریکارڈ میں موجود تھا تو پھر غائب کیسے ہوگیا ، اب اس کا جواب تو وزیراعظم شہباز شریف ہی دے سکتے ہیں کہ سائفر گیا تو کہاں گیا۔
یہ بھی پڑھیے
آڈیو لیکس اور سائفر کی گمشدگی کا معاملہ، عمران خان اور سابق وزراء کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
آڈیو لیک کا موسم: سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک اور آڈیو کلپ منظرعام پر آگیا
غیرملکی سازش کا بیانیہ ایک مرتبہ پھر قومی سطح آگیا ہے ، اور یہ پیشرفت وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کے بعد ہوئی ہے۔ اجلاس میں پرائم منسٹر ہاؤس کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تفصیلی تبادلہ خیال اور خدشات کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں عمران خان اور سابق وفاقی وزراء کی مبینہ آڈیو لیکس پر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
کل شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں اتحادی حکومت کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء نے امریکا کی جانب سے آنے والے سائفر کی معنی کی سختی سے تردید کی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے بیانیے میں سائفر کو حکومتی تبدیلی کی وجہ قرار دیا تھا۔
نیشنل سیکورٹی کمیٹی (این ایس سی) کا پہلا اجلاس 31 مارچ کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہوا تھا۔ اجلاس نے "پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت” کے بعد کسی ملک کا نام لیے بغیر "مضبوط ڈیمارچ” جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
رواں سال اپریل کے مہینے میں ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی-آئی ایس پی آر) میجر جنرل بابر افتخار نے سفارتی کیبل موصول ہونے کی تصدیق ضرور کی تھی تاہم انہوں نے کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اعلامیے میں ‘سازش’ کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ‘بیرونی مداخلت’ قرار دیا گیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں سفارتی کیبل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تاہم سازش کو یکسر مسترد کیا گیا ، تاہم بیرونی مداخلت کو تسلیم کیا گیا۔ ڈیمارچ ایک سفارتی اصطلاح ہے جو ایک ملک دوسرے ملک کو احتجاج کے طور پر دیا جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت گرانے کی سازش رچی گئی تھی جسے سفارتی کیبل کے ذریعے بے نقاب کیا گیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے دھمکی آمیز خط کو جعلی قرار دیا تھا تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں دھمکی آمیز خط کو تسلیم کیا تھا تاہم انہوں نے تاہم انہوں نے ہر قسم کے سازشی دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
قومی سطح کی سیاست پر تازہ ترین واقعات رونما ہورہے ہیں ، وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت کل (جمعہ کے روز) وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا۔ جس میں سائفر کی چوری کو آئین، حلف، قوانین اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کی سنگین خلاف ورزی کے علاؤہ اسے ریاست کے خلاف ناقابل معافی جرائم قرار دے دیا گیا۔ کابینہ نے آڈیولیکس کے حوالے سے سابق وزیراعظم اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کل وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس میں انکشاف کیا گیا کہ پی ایم ہاؤس کے ریکارڈ سے سائفر غائب ہے ، اب اس کی انکوائری کی جائے گی ، لیکن وفاقی کابینہ نے عمران خان ، ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم اور سابق وفاقی وزراء کے خلاف انکوائری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 22 اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت پہلی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی اس وقت وہ سائفر ریکارڈ میں موجود تھا ، پھر اس کے بعد وہ سائفر وہاں سے چوری ہوگیا ، اب یہ جواب تو وزیراعظم شہباز شریف سے پوچھا جانا چاہیے یا پھر پی ایم ہاؤس کے عملے سے پوچھا جانا چاہیے کہ سائفر کہاں چلا گیا۔؟