سندھ نے صحافیوں اور میڈیا پریکٹیشنرز کے تحفظ کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے۔
سندھ حکومت نے بدھ کے روز صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹیشنرز کے تحفظ کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کردیا۔
اس بات کا اعلان ایڈمنسٹریٹر کراچی اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب صدیقی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے کیے ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی کا خوف، نادیدہ قوتیں ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کیلیے سرگرم
کراچی میں 5 ہزار روپے کے موبائل فون کیلئے 20 سالہ نوجوان قتل
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صدیقی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” سندھ کابینہ نے صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹیشنرز کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام کی منظوری دے دی۔”
#Sindh Cabinet has approved the establishment of the Commission for the Protection of Journalists & Other Media Practitioners. Justice Rasheed Rizvi will serve as its 1st Chairperson
— Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) November 16, 2022
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "کمیشن کے پہلے چیئرمین جسٹس رشید رضوی ہوں گے۔”
واضح رہے کہ رواں سال فروری کے شروع سندھ حکومت کے اس وقت کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ صوبائی حکومت میڈیا کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیشن بنائے گی، جیسا کہ سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 بنایا گیا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ کا یہ بل سندھ اسمبلی نے مئی 2021 میں متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس کا مقصد صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹیشنرز کی آزادی، غیر جانبداری، تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دینا، تحفظ دینا اور اسے یقینی بنانا تھا۔
واضح رہے کہ میڈیا رائٹس واچ ڈاگ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) 2021 اور ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے۔
بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کو ڈرامے ، دھمکانے ، مارنے پیٹنے ، اغواء اور ہراساں کیے جانے کے ساتھ ساتھ قتل کیے جانے کے واقعات کو غیرمعمولی خبر کے طور پر نہیں لیا جاتا۔ جبکہ پیشے کے اعتبار سے یہ پاکستان میں 5واں خطرناک ترین پیشہ ہے۔
رپورٹس کے مطابق صرف سندھ میں رواں سال کم از کم ایک صحافی کو قتل کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، 2020 میں کم از کم دو کو اغواء کیا گیا تھا تاہم بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا ، اور ایک کو قتل کر دیا گیا تھا۔ صرف سکھر میں گزشتہ 18 ماہ کے دوران مختلف صحافیوں کے خلاف مبینہ طور پر کم از کم 25 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔