اندرونی جنگ
کراچی کے ایک نوجوان نےایک مال کی تیسری منزل سے گر کر اپنی جان دے دی۔ مرنےوالا اٹھائیس سال کا ڈگری ہولڈرنوجوان تھا، بیروزگار تھا اور ڈپریشن کا مریض تھا۔گھروالوں کا کہنا ہے کہ ایک بار پہلے بھی وہ خودکشی کی کوشش کرچکا تھا اور اس کا علاج چل رہا تھا۔ والدہ کا کہنا ہے کہ وہ دوائیں کھارہا تھا اور بہترہورہا تھالیکن نہ جانےکیوں اس نے خودکشی کرلی۔
کچھ دن پہلے کراچی کے ہی ایک اورشہری نے پنکھے سے لٹک کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔متوفی 6 بچوں کا باپ تھا،دوسال سے بیروزگار تھا اور اس پر ستر ہزار کا بینک کا قرضہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے
دامن کو زرا دیکھ ۔۔۔ زرا بند قبا دیکھ
کراچی میں ہی اگست کےمہینےمیں ایک اور خودکشی کی خبر سامنے آئی تھی،مرنےوالے نے اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ کر زندگی کا خاتمہ کیا۔مرنےسےپہلے انہوں نے اپنی بیوی کو موبائل پر میسج بھیجا کہ مجھے معاف کرنامیں گھرکا خرچہ اٹھاسکانہ تمہیں خوش رکھ سکا۔ اہل محلہ بتاتے ہیں کہ متوفی کا اہلیہ سے آخری جھگڑا بجلی کا بل نہ بھرنے پر ہوا تھا۔
گزشتہ دنوں میرے دوست کی بیٹی کی سہیلی نےخود کشی کرلی۔ عزیز صاحب جب اپنی بیٹی کے ہمراہ اس بچی کےگھر تعزیت کرنےگئے تو دیکھا کہ والد اور بھائی کو زیادہ افسوس نہیں تھا جبکہ والدہ اور بہن کی حالت غیر تھی۔ حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ والد اور بھائی اس پر بہت زیادہ پابندیاں لگاتے تھے جبکہ بچی کلفٹن کے ایک مشنری اسکول میں پڑھ رہی تھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی قدغنیں لگانےکی وجہ سے وہ 21 سالہ لڑکی اتنی بددل ہوگئی کہ زندگی سے ہی منہ موڑ لیا۔
ایک دوست کافی عرصہ بیروزگار رہے،اس دوران وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہوگئے۔ ان کا کافی عرصے علاج چلا۔ بیوی اور بچوں نے کافی سہارا دیا۔ان کی کڑوی کسیلی باتیں بھی برداشت کیں لیکن چھوڑانہیں، اب وہ ٹھیک ہوچکےہیں اور ایک اچھے سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔
ایک رشتے دار بینک میں ملازم تھے،بہترین شریک حیات، تین پیاری بیٹیاں،اپنا گھر۔۔غرض کسی قسم کی ٹینشن نہیں تھی لیکن انہیں بھی ڈپریشن نے آلیا۔ اس کےبعد ان کا وہ حال ہوا کہ ہماری بھابھی اپنی بچی کو نواسیوں سمیت ان کے گھر سے لے آئیں کیونکہ انہیں لگا کہ بچیوں کی جان کو خطرہ ہے۔ انہوں نے ہی شور مچایا کہ اسے ڈپریشن کا مرض ہے اس کا علاج کراؤ، کاونسلنگ کراؤ، کوئی ماننے کو تیارنہ تھا لیکن رفتہ رفتہ سمجھ آیا اور سرفراز بھائی نے اپنا علاج خود کروایا، الحمدللہ وہ بھی اب ٹھیک ہوچکے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہےہیں۔
واقعات کی فہرست کچھ لمبی ہوگئی ہے لیکن قلابے ملانےضروری تھے۔ خودکشیوں کے حالیہ واقعات میں مرنےوالے مالی مشکلات سے نبردآزما تھے، پریشر برداشت نہ کر پائے اور ہر فکر سے آزاد ہوگئے لیکن اپنے پیچھے چھوڑ گئے روتے بلکتے بچے، حالات کے تھپیڑے کھاتی بیوہ، درد سے تڑپتی بہن اور ماں ۔ مرنےوالا تو مرگیا لیکن پیچھے جنہیں چھوڑ گیا ان کے مسائل تو ایک ہزار گنا زیادہ بڑھ گئے۔
کیا آپ جانتے ہیں یہ تمام افراد ڈپریشن کا شکار تھے۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے، جیسےنزلہ، کھانسی، بخار، زیابطیس اور بلڈ پریشر وغیرہ۔۔ اور اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔۔۔۔
ڈپریشن کیوں ہوتاہے؟
ذہنی طور پر کمزور ہونا یعنی اعصابی تناؤ کا شکار ہونا یا پھر پریشر نہ لے پانا ۔۔ یہ کچھ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اعصابی تناؤ کا شکار افراد کے دماغ میں کچھ ایسی کیمیائی تبدیلیاں ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھونے لگتاہے، اس کے مزاج میں چڑچڑا پن اور غصہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے مزاج میں بار بار تبدیلیاں یا موڈ سوئنگز ہوتے ہیں۔ وہ گھروالوں سے دور ہوجاتا ہے،خاموش ہوجاتا ہے، اسے تنہائی میں سکون ملنے لگتا ہے۔ وہ زندگی سے ہی مایوس ہو جاتا ہے۔ دماغ میں سرسرانےوالے زہریلے مادے نفرت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر اپنوں کی محبت پیچھے چلی جاتی ہے۔ پھربار بار اس کا دماغ خودکشی کی جانب مائل ہونےلگتاہے اوراگر اسکے مرض کی بروقت تشخیص نہ ہوتو مسائل پیچیدہ ہونےلگتے ہیں۔
ڈاکٹرز کےمطابق ڈپریشن کامرض کم از کم دو ہفتے بھی رہ سکتاہے اور کئی سال پربھی محیط ہوسکتا ہے، کبھی کبھی تو یہ اکثر لوگوں کے دماغ کے خلیوں میں دبا رہتا ہے اورمریض کو ہلا کر رکھ دینے والے کسی بھی واقعے یا بات کے بعد اسے پھر ڈپریشن کا دورہ پڑ جاتا ہے۔
میں نے آپ کو ڈپریشن میں مبتلا کچھ لوگوں کے کیسز بتائے،جن میں کچھ نےاپنی جان لی اور کچھ زندگی کی طرف لوٹ آئے اور آج خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ جو لوگ آج ابھی تک ہم میں موجود ہیں وہ اسلئے ہیں کیونکہ انہیں بروقت مدد مل گئی۔ لگتاہے آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔ ایک اچھاجیون ساتھی،کوئی دوست،ڈاکٹر یاپھرکوئی ایسا جو ہماری بات سمجھ سکے۔ یعنی ڈاکٹرکے علاوہ وہ تمام لوگ جو ہمارے قریب ہیں ڈپریشن کے شکنجے سے نکلنےمیں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔
میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ کسی بات پر پریشان ہوتے ہیں تو اپنی بیٹی سے ہلکی پھلکی گفتگو شروع کردیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح سے ان کے لیئے تھراپی ہے، اپنی بیٹی سے بات کرکے انکی ٹینشن دور ہوجاتی ہے۔
مجھے کبھی ٹینش ہوتی ہے تو میں اپنے شوہر یا اپنے قریبی دوستوں سے ڈسکس کرتی ہوں، بار بار بات کرتی ہوں،نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ میری پریشانی ختم تونہیں ہوتی لیکن کم ضرور ہوجاتی ہے۔
یہاں میرے کچھ سوالات ہیں ۔۔اگر آپ کے پاس جواب ہیں تو بتائیے تاکہ گتھی کچھ سلجھ جائے۔
آپ میں سے کتنے لوگ اپنےگھروالوں کےساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں؟ یا یوں کہہ لیجیے کہ آپ میں سے کتنے لوگ موبائل کو سائیڈ پر رکھ کر اپنےاہلخانہ سے بات کرتےہیں؟ آپ میں سے کون کون یہ جانتا ہے کہ آپ کےگھر کےکسی فرد کےساتھ کوئی ذہنی مسئلہ تونہیں؟ یا وہ کسی بات پر مایوسی کا شکارتونہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں خودکشی کا شکار ہونےوالے زیادہ ترافراد ہجوم میں تنہائی کا شکارتھے، وہ اکیلےتھے، ان سے کسی نے بات نہیں کی اور اس اکیلے پن نے ان کی جان لےلی۔
سورہ مائدہ کی آیت ہے کہ "جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا”
اپنے اطراف نظر دوڑائیے، شاید آپ کو کوئی ایسا نظر آجائے جسے ہماری توجہ کی ضرورت ہو،وہ آپکا دوست بھی ہوسکتاہے، آپ کےگھرکا کوئی فرد بھی ہوسکتاہے،آپ کو بس اس سے بات کرنی ہے،اور اس کا خیال رکھناہے۔ تاکہ وہ اپنے اندر کی جنگ جیت سکے۔
نوٹ:یہ بلاگ بلاگر کے اپنے خیالات پر مبنی ہے ادارے کا ان کے خیال سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔