وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بار بار خوشخبریوں کے دعوے، آئی ایم ایف تاحال خاموش

پاکستان کے دورے پر آنے والا آئی ایم ایف کا وفد 9 فروری کو واپس روانہ ہو گیا لیکن پاکستان معیشت کی بہتری کےلیے کوئی خبر نہیں آئی۔

31 جنوری کو پاکستان کے دورے پر آنے والا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا وفد 9 فروری کو واپس روانہ ہو گیا ، وفد حکومت پاکستان کے ساتھ بحران سے متعلق مالی امداد کے معاہدے کو پایا تکمیل تک پہنچائے بغیر چلا گیا، جبکہ پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے معاشی پیکج انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

آئی ایم ایف کی ٹیم 9 فروری کو جمعے کے روز پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی تکمیل کے بغیر ہی روانہ ہو گئی۔ ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ دوسری جانب سیاسی افراتفری اور بگڑتی ہوئی سیکورٹی کی صورتحال نے معیشت پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔ بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جن کی ادائیگیوں کا کوئی سبب دکھائی نہیں دےرہا۔

یہ بھی پڑھیے

اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان، کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں گراوٹ

ڈی ایچ ایل کا پاکستان میں "امپورٹ ایکسپریس پروڈکٹ” سروس معطل کرنے کا اعلان

ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج انتہائی ضروری ہے۔ مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ، روپے کی قدر گرنے کی  وجہ سے ملک مزید درآمدات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

درآمدات نہ ہونے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا ایک بہت بڑا حصہ بند ہو گیا ہے ، اور باقی ماندہ انڈسٹری بھی شدید دباؤ کا شکار ہے ، بجلی مہنگی ہونے سے پروڈکشن اخراجات بڑھ رہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔

آئی ایم ایف کے مشن نے  اپنے  ایک بیان میں کہا ہے کہ "ملکی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پالیسی اقدامات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم اب تک پوری طرح سے معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔”

آئی ایم ایف کے حکام کا کہنا ہے کہ "ان پالیسیوں کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے آنے والے دنوں میں ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔”

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک جوہری طاقت کا حامل ملک ہے ، انہیں ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا ، برآمدی شعبے کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنا ہوگی ، امیروں سے حاصل ہونے  والے ٹیکس کے پیسے کو غریبوں پر خرچ کرنا ہو گا ، پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔

9 فروری کو آئی ایم ایف کی ٹیم کی واپسی کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت "کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی” اور یہ کہ قرض دہندہ کی جانب سے حکومت کے ساتھ وسیع پیمانے پر متفقہ پالیسیوں پر ایک طےشدہ یادداشت کا اشتراک کیا گیا ہے۔

ورلڈ بینک کے سابق مشیر اور معاشی ماہر عابد حسن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک ڈیل نہ ہونے کی وجہ سے "کاروباری برادری میں مایوسی پھیل رہی ہے ، استحکام حاصل کرنے کا واحد راستہ ڈیل ہے۔ ڈیل نہ ہونے کی وجہ سے غیریقینی صورتحال کو بڑھاوا مل رہا ہے۔‘‘

متعلقہ تحاریر