گزشتہ سال کے مقابلے  فروری میں کپاس کی پیداوار میں 34.5فیصد کمی ریکارڈ

سندھ میں پیداوار 46.5 فیصد کم ہوکر 1.87 ملین گانٹھوں پر آگئی، جب کہ پنجاب میں کپاس کی فصل 23.74 فیصد کمی سے 2.99 ملین گانٹھوں تک محدود رہی

ملک میں فروری  کے مہینے میں  کپاس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 34.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی جس کی بنیادی وجہ گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب کو قرار دیا جارہا ہے  ۔

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے یکم مارچ تک جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں پیداوار 46.5 فیصد کم ہوکر 1.87 ملین گانٹھوں پر آگئی، جب کہ پنجاب میں کپاس کی فصل 23.74 فیصد کمی سے 2.99 ملین گانٹھوں تک محدود رہی۔

یہ بھی پڑھیے

روپے کی قدر میں کمی، موٹرسائیکلیں 5سے 25 ہزار روپے تک مہنگی

موڈیز نے 5 پاکستانی بینکوں کی ریٹنگ گراکر سی اے اے 3کردی ، آؤٹ لک مستحکم

کپاس کی پیداوار میں کمی ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے ایک اہم خطرہ ہے جسے ہفتہ بھر 24 گھنٹے پیداوار برقرار رکھنے کیلیے  سالانہ روئی کی تقریباً 14 ملین گانٹھیں درکار ہوتی ہیں ۔

کچھ بڑے اسپنرز کپاس کی  کمی محسوس کرتے ہوئے قیمتوں کے عروج کے دوران بڑے آرڈر بک کرائے تھے۔ جب تک کھیپ پہنچی بین الاقوامی منڈی میں کساد بازاری کے نتیجے میں روئی کی قیمتوں میں 20-25 فیصد تک کمی واقع ہوگئی۔

مقامی سپلائیز پر چلنے والے چھوٹے اسپنرز 50 فیصد صلاحیت پر کام کرتے ہیں۔ بڑے اسپنرز درآمدات اور مقامی خریداری کی طاقت پرہفتےمیں ساتوں دن 24 گھنٹے  کام کرتے تھے۔

لیکن تمام اسپنرز کو دھچکا لگا کیونکہ عالمی منڈی میں مندی کی وجہ سے ویورز نے سوت کی کم مقدار خریدی جبکہ کچھ مہینوں میں یارن کی برآمد میں 30 فیصد یا اس سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔ تمام اسپنرز نے بڑے غیر فروخت شدہ اسٹاک جمع کیے جس کے نتیجے میں بڑی اسپننگ ملز بھی بند ہوگئیں۔ متعدد ملوں کی بندش کے بعد یارن کا ذخیرہ آہستہ آہستہ فروخت ہوا۔

زیادہ تر اسپنرز کے پاس اپنی ملیں چلانے کے لیے معیاری کپاس نہیں ہے۔ کم عالمی نرخوں پر روئی درآمد کرنے والے بھی مشکل میں ہیں کیونکہ جیسے ہی درآمدی روئی کی آمد شروع ہوئی مرکزی بینکوں نے اس مقدار کو کم کر دیا جسے کلیئر کیا جا سکتا تھا۔ کھیپ بندرگاہ پر ڈھیر ہوگئی۔ حکومت کی طرف سے نان کلیئر کنٹینرز پر ڈیمریج معاف کر دیا گیا ہے لیکن شپنگ لائنز جو چند دنوں کے بعد کنٹینرز واپس نہ کرنے پر بھاری جرمانہ وصول کرتی ہیں، نے جرمانے معاف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

جرمانے کی لاگت 100 ڈالر یومیہ  سے 300 ڈالر یومیہ تک ہوتی ہے۔ کپاس کے ہر درآمد کنندہ کو فی کنٹینر  1500 ڈالر سے 4500ڈالر  تک جرمانہ ادا کرنا ہوگاجس کے نتیجے میں کم درآمدی لاگت کا فائدہ ختم  ہوگیا ہے۔ درآمدی کپاس  کی قیمت درحقیقت عالمی شرح سے بڑھ گئی ہے۔

بنگلہ دیش میں اسپنرز کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ان کی حکومت نے بھی زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے پابندیاں عائد کی تھیں۔ ہندوستان کے پاس کپاس کا وافر ذخیرہ ہے لیکن ہندوستانی کسان اپنے گھروں کی چھتوں پر کٹی ہوئی روئی کو ذخیرہ کرکے قیمتیں بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہندوستانی اسپنرز بھی چند ماہ تک 50 فیصد صلاحیت کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن اب مارکیٹ میں روئی کی آمد بڑھ گئی ہے اور وہ پوری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

صرف ویتنام ہی بہتر پوزیشن میں ہے کیونکہ اس کی کپاس کی کھیپ مستقل بنیادوں پر پہنچ رہی ہے اور ملیں ہفتےبھر 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں۔پاکستان میں  کپاس کی فصل سیلاب سے تباہ نہ بھی ہوتی تب بھی یہ صنعت کی ضروریات سے 6-7 ملین گانٹھیں کم ہوتی۔

پڑوسی ملک بھارت  نے واہگہ بارڈر کے ذریعے کپاس کی نقل و حمل پر پابندی عائد کررکھی ہے  جس سے مال برداری کی لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ ان دنوں مال برداری درآمدات میں لاگت کا ایک اہم جز ہے۔ بنگلہ دیش نے حال ہی میں اپنی صنعت پر دباؤ کم کرنے کے لیے تین زمینی بندرگاہوں کے ذریعے کپاس اور ٹیکسٹائل کے خام مال کی درآمد کی اجازت دی ہے۔ بجلی اور توانائی کے نرخوں میں اضافے نے اسپننگ آپریشنز کی عملداری کو بھی متاثر کیاہے۔

متعلقہ تحاریر