بی او ایف اے نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تک قرضوں کی روک تھام کو ناگزیر قرار دے دیا

بی او ایف اے کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام فوری طورپربحال نہیں ہوتا تو پاکستان کو قرض کی ادائیگی روکنے کی ضرورت ہوگی، پروگرام کی عدم بحالی پاکستانی کرنسی کو مزید ڈی ویلیو کردے گی تاہم چائنا کی مدد دباؤ کم کرنے میں مدد فراہم کرے گی

بینک آف امریکا (بی او ایف اے ) نے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف ) کی  فوری مدد کے بغیر پاکستان کے قرضوں کی روک تھام کو ناگزیر قرار دے دیا ہے ۔

بینک آف امریکا  (بی او ایف اے ) کا کہنا ہے کہ اگر انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف ) پروگرام  فوری طور پر بحال نہیں ہوتا تو پاکستان کو قرض کی ادائیگی روکنے کی ضرورت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا آئی ایم ایف پروگرام کیلئے پاکستان کی مدد کے عزم کا اعادہ

بلوم برگ نے کی رپورٹ میں کہا ہے کہ معاشی ماہر ین کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کا معاہدہ تاحال ہوا میں معلق ہے اور پہلی قسط کی وصولی کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے ۔

معاشی ماہرین کے مطابق جب تک کہ ادائیگی جلد نہیں ہوجاتی،موقوف کی حالت ناگزیر نظر آتی ہے تاہم پاکستان آئی ایم ایف پروگرام بحالی کیلئے متعدد اقدامات کر رہا ہے ۔

بلوم برگ کے مطابق پاکستان نے ساڑھے 6  ڈالر کے قرض پروگرام  بحال کرنے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائیں جس میں ٹیکسز، شرح سود اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے جمعرات کو کہا کہ اگلے چند دنوں میں معاہدہ ہونے کا امکان ہے حالانکہ پاکستان ماضی میں اس طرح کی ٹائم لائنز سے محروم رہا ۔

مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ملک کو جون تک تقریباً 3 ارب  ڈالر کا قرضہ ادا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ 4  ار ب ڈالر کی واپسی متوقع ہے۔

بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس ماہ کے شروع میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا کی جانب سے قرضے کے رول اوور نے پاکستان پر دباؤ کو کم کرنے میں مدد کی ۔

بینک آف امریکا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قریبی مدت میں ریلیف کی کلید چین کے پاس ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا قرض دہندہ ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آئی ایم ایف کے ڈھاکا اور کولمبو سے اسٹاف لیول معاہدے مگر اسلام آباد تاخیر کا شکار

پاکستان میں ڈیفالٹ ایک حقیقی امکان ہے، جیسا کہ فیچ ریٹنگز کے مطابق، اس کو تفویض کردہ موجودہ درجہ بندی میں اشارہ کیا گیا ہے۔ "امکان زیادہ ہے، لیکن یہ 50 فیصد سے بھی کم ہے۔

پاکستانی روپیہ اس سال اب تک اپنی قدر کا تقریباً 20 فیصد کم کر چکا ہے۔ کرسٹینز کے مطابق، اگر فنڈنگ ​​مکمل نہیں ہوتی ہے، تو یہ ممکن ہے کہ کرنسی کی قدر میں مزید کمی دیکھ سکیں۔

متعلقہ تحاریر