ملک میں جاری معاشی بگاڑ 5 لاکھ صنعتی ملازمین کی نوکریاں کھا گیا
ایک طویل رپورٹ کے روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ معاشی سست روی نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری کو جنم دیا ہے۔

رواں مالی سال میں اب تک صنعتی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے ملک بھر میں معیشت سے منسلک شعبوں میں لاکھوں ملازمتیں ختم کردی گئی ہیں۔
وزارت خزانہ کی جانب سے خام مال کی درآمد پر جاری پابندیوں ، زرمبادلہ کے شید بحران ، بجلی اور گیس کے بلوں میں بےپناہ اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے ، جس کی وجہ صنعتی سرگرمیوں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
خام مال پر درآمدی پابندی کی وجہ سے کراچی کے چار صنعتی شعبوں اور ملک بھر میں آٹو وینڈنگ یونٹس کو شدید متاثر کیا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز نے دعویٰ کیا کہ مختلف صنعتی یونٹس اور آٹو موبائلز کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے تقریباً "500,000 سے زائد افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔”
یہ بھی پڑھیے
ہفتہ وار مہنگائی 48.35 فیصد تک جا پہنچی، رپورٹ
پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات گزشتہ سال کی نسبت 29 فیصد کم ہوگئی
سندھ حکومت کے ڈائریکٹوریٹ آف مین پاور لیبر ہیومن ریسورس کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تاجر برادری اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ صنعتیں درآمدات کی روک تھام، زرمبادلہ کے بحران اور بڑھتی ہوئی ان پٹ لاگت ، زرمبادلہ کی شرح مبادلہ کی وجہ سے صنعتی شعبے میں بے روزگاری 15 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
بے روزگاری سے متعلق تحقیق کرنے والے ایک تجزیہ کار نے جب سندھ حکومت کے محکمہ شماریات، منصوبہ بندی اور ترقی کے بیورو ایک اہلکار سے تفصیلات جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے فروری کے بیورو کے ماہانہ صنعتی پیداوار اور روزگار سروے (MIPE) کو چیک کرنے کا مشورہ دیا۔
MIPE کے مطابق فروری 2022 میں مختلف صنعتوں کے 18 شعبوں میں ملازمین کی کل تعداد 2 لاکھ 21 ہزار 163 تھی جبکہ فروری 2023 میں یہ تعداد 2 لاکھ 2 ہزار 663 رہی۔ اسی طرح، صنعتوں کی مندرجہ بالا کیٹیگریز میں پروڈکشن ورکرز کی تعداد فروری 2022 میں 162,207 تھی جو فروری 2023 میں کم ہو کر 151,194 رہ گئی ہے۔
فروری میں بڑے پیمانے پر یونٹس میں پیداواری کارکنوں کی مجموعی تعداد فروری 2021 میں 165,000 تھی جبکہ فروری 2022 میں یہ تعداد گھٹ کر 155,000 رہ گئی تھی ، جب کہ فروری 2022 میں ملازمین کی کل تعداد 2 لاکھ 20 ہزار تھی جو فروری 2023 میں کم ہو کر 2 لاکھ 5 ہزار رہ گئی تھی۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (SAI) کے صدر ریاض الدین نے کہا ہے کہ خوراک کے شعبے کو چھوڑ کر، سائٹ کے علاقے میں محنت مزدوری کرنے والے 5 لاکھ مزدوروں میں سے ایک لاکھ مزدور اپنا بےروزگار ہو گئے ہیں، خاص طور پر اکتوبر 2022 سے اب تک۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں صنعتی سرگرمیوں میں 30 سے 40 فیصد کمی آئی ہے اور کچھ صنعتیں یا تو بند ہو گئی ہیں یا رواں مالی سال کے دوران اپنی ایک شفٹ کو معطل کررکھا ہے۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (SAI) کے صدر ریاض الدین کا کہنا تھا کہ "مجھے لگتا ہے کہ 19.99 روپے پاور ٹیرف اور 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس ٹیرف کے لاگو ہونے کی وجہ سے 50 فیصد مزید صنعتیں بند ہو جائیں گی۔”
ریاض الدین نے کہا کہ وفاقی حکومت کے محکمے، سندھ بیورو آف سٹیٹسٹکس (ایس بی ایس) اور سندھ حکومت کے مختلف محکمے، صنعتوں سے بے روزگاری کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے جولائی 2022 سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ کاروباری حضرات ان محکموں کی جانب سے کسی بھی قسم کی ہراسانی کے خوف سے ملازمتوں میں کمی کا کوئی ڈیٹا فراہم کرنے سے گریزاں ہیں، جبکہ لسٹڈ فرمیں ہر ماہ اپنے ورکرز کا ڈیٹا پیش کر رہی ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ صوبائی حکومت کے مختلف محکموں کو صنعتی سرگرمیوں کی بحالی تک ٹیکس اور لیویز کی وصولی کے اپنے اہداف کو موخر کرنا چاہیے۔
نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (NKATI) کے چیئرمین فیصل معیز خان نے کہا کہ یہ علاقہ تقریباً 5000-6000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے یونٹس پر مشتمل ہے ، جن کی پروڈکشن کا 60 فیصد حصہ برآمدی سامان کا مرہون منت ہے۔ نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا 5 سے 60 لاکھ کارکنوں کو کام کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
فیصل معیز خان کا کہنا تھا کہ ناموافق معاشی صورتحال کے پیش نظر تقریباً 25 فیصد صنعتوں نے اپنے یونٹس بند کر دیے ہیں جس سے 100,000 سے زائد کنٹریکٹ ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ 75 فیصد صنعتوں نے اپنی پیداوار کم کر دی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تقریباً 30-50 فیصد جزوی طور پر بند ہوچکا ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
ایف بی کے چیئرمین ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (ایف بی اے ٹی آئی)، ہارون شمسی نے کہا کہ "فی الحال، 1800 یونٹس میں 320,000-380,000 کارکنوں میں سے تقریباً 15 فیصد افرادی قوت ختم کردی گئی ہے، کیونکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات کئی مہینوں سے گر رہی ہیں۔”
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر فراز الرحمان نے کہا کہ درآمدی پابندیوں کے نتیجے میں خام مال کی قلت کے باعث 50,000 سے زائد ورکرز بالواسطہ اور بالواسطہ طور پر اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں سے 10,000 صرف فارماسیوٹیکل سیکٹر سے منسلک تھے۔”
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس ایکسیسریز (PAAPAM) کے سینئر نائب صدر عثمان اسلم ملک نے کہا کہ اگست 2022 سے آٹو پلانٹ کے بار بار بند ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں وینڈنگ انڈسٹری کو تقریباً 250,000-300,000 براہ راست اور بالواسطہ ملازمتوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لارج اسکیل مینوفیکچرنگ یونٹس کی پیداوار فروری 2022 کے مقابلے میں 11.6 فیصد سکڑ گئی۔ مال سال 2023 کے پہلے سات مہینوں میں سالانہ بنیادوں پر پیداوار 5.56 فیصد منفی ہو گئی ہے۔