منی بجٹ سمیت تمام شرائط کی منظوری کے باوجود آئی ایم ایف کی صفوں میں مکمل خاموشی

عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے تمام پیشی شرائط کی منظوری کے باوجود بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ رہا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) کے لیے تمام پیشگی شرائط پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ تاہم عالمی مالیاتی ادارے کی صفوں میں ابھی مکمل خاموشی پائی جاتی ہے، معاہدہ اپنی تکمیل کو پہنچے گا یا نہیں اس حوالے سے آئی ایم ایف کے حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ موجودہ معاہدہ ختم ہونے میں صرف تین روز باقی رہ گئے ہیں۔

گذشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں ، اور اب مالیاتی ادارے کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی جواز موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شہباز شریف حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے

کاروباری اور تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس میں 2.5 فیصد اضافہ

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو منظور کرتے ہوئے وزیر خزانہ  اسحاق ڈار نے سپر ٹیکس کے لیے تین سلیب متعارف کروائے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر پر زیادہ سے زیادہ سپرٹیکس 10 فیصد وصول کیا جائے گا۔

کھاد اور پیٹرولیم مصنوعات

وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے کھاد پر 5 فیصد لیوی اور پیٹرولیم مصنوعات پر 10 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی بڑھا دی ہے ۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے پر 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کردیئے گئے۔

لگژری آئٹمز

اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی ڈیل کو فائنل کرنے کےلیے لگژری اشیاء پر جی ایس ٹی 25 فیصد کردی ہے۔ جبکہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے نیچے لانے کی ضرورت تھی مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

انکم ٹیکس

آئی ایم ایف کی خوشنوی کے لیے حکومت نے انکم ٹیکس میں ڈھائی فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اضافی فکس انکم ٹیکس بھی متعارف کروایا ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق تنخواہ دار طبقے کی سالانہ 24 لاکھ سے زائد آمدن پر ٹیکس میں 2.5 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔

سالانہ 24 لاکھ روپے تک آمدن پر ٹیکس 20 سے بڑھا کر22.5 فیصد کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی  سالانہ 24 لاکھ آمدن پر ایک لاکھ  65 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔

سالانہ 36 لاکھ روپے تک آمدن پر ٹیکس  25 فیصد سے بڑھا کر  27.5 فیصد کردیا گیا جبکہ ساتھ ہی سالانہ  36 لاکھ روپے تک آمدن پر 4لاکھ  35 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔

سالانہ  60 لاکھ سے زائد آمدن پرٹیکس 32.5 سے بڑھا کر 35 فیصد کردیا گیا ہے  جبکہ 10 لاکھ 95 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔

کاروباری طبقے پر سالانہ 6 لاکھ سے 8 لاکھ آمدن پر ٹیکس 5 سے بڑھا کر  7.5 فیصد، سالانہ 8 لاکھ سے12 لاکھ آمدن پر ٹیکس 12.5 سے بڑھا کر15 فیصد ، سالانہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ  روپےآمدن پر ٹیکس 17.5 سے بڑھا کر20  فیصد جبکہ  سالانہ 30 لاکھ سے 40 لاکھ  روپے آمدن پر ٹیکس 27.5 سے بڑھا کر 30 فیصد کردیا گیا ہے۔

امپورٹ سے پابندی ختم

آخری اقدامات پر طور پر دو روز قبل حکومت کی ہدایات پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے امپورٹ پر عائد تمام طرح کی پابندیاں ختم کردیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب کیے گئے نوٹی فیکیشن میں بینکوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ امپورٹرز کو زرمبادلہ کے ذخائر کی فراہمی میں مکمل تعاون فراہم کریں۔

نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے 6 ہزار سے زائد کنٹینرز ریلیز کرنے کے لیے بینکوں کو زرمبادلہ کی فراہمی کی اجازت دے دی۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار

ہفتے کے روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات سینیٹر اسحاق ڈار نے بجٹ وائنڈاپ سپیچ  کرتے ہوئے کہا کہ ایکسٹرنل فنانسنگ نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں 300 ارب روپے کی کمی حائل تھی ، یہ کمی 213 ارب روپے کے نئے ٹیکسز اور 85 ارب روپے کٹوتیوں سے پوری کی جائے گی۔ آئی ایم  ایف کے ساتھ معاہدے کے لیے ترقیاتی بجٹ یا تنخواہوں میں اضافے پر کٹ نہیں لگے گا۔

سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات لیوی بڑھانے کا محدود اختیار وفاقی حکومت مل گیا یے، حکومت صرف پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 10 روپے بڑھنے کا اختیار حاصل کرے گی، حکومت صرف پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 50 سے بڑھا کر 60 روپے کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں پنشن کی اصلاحات کا آغاز کر رہے ہیں، اب ایک پینشنرز کو تین تین پینشن نہیں دے سکتے، اب پینشنرز کو صرف ایک پنشن ملے گی جو سب سے زیادہ پنشن ہے وہ لے سکتے ہیں، پینشنر کی بیوی یا شوہر کے انتقال کے بعد بچوں کو صرف 10 سال تک پینشن ملے گی۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل مشاورت کرتے رہے ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس ہدف میں مزید 215 ارب روپے کا اضافہ کر رہے ہیں۔

سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ٹیکس کا ہدف 9200 سے بڑھا کر 9415 ارب روپے کیا جا رہا ہے، اب این ایف سی کے تحت صوبوں کا حصہ 5390 ارب روپے کیا جارہا ہے۔

تبصرہ

مذکورہ بالا حکومتی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات اپنی جگہ ، ان کی طرف سے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے اقدامات بھی اپنی جگہ ، مگر آئی ایم ایف کی جانب سے ابھی تک اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے حوالے سے بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی۔ وزیراعظم اور کرسٹالینا جارجیوا کی فرانس میں ہونے والی ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی اقدامات کو سراہا تو جارہا ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا۔

متعلقہ تحاریر