اقتصادی مشاورتی کونسل اور مفادات کا ٹکراؤ

وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو کردی ہے جس کی سربراہی عمران خان خود کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو کردی ہے جس کی سربراہی عمران خان خود کر رہے ہیں۔ ناقدین یہ سوالات کر رہے ہیں کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو سے توقعات کیا ہیں اور موجودہ کونسل پر تنقید کے نشتر کیوں برسائے جا رہے ہیں؟

اقتصادی مشاورتی کونسل کیا ہے اور یہ کیا کرتی ہے؟

اقتصادی مشاورتی کونسل یا اکنامک ایڈوائزری کونسل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو حکومت پاکستان کو مختلف معاشی امور، کاروباری حالات، بینکنگ کے شعبے کی صورتحال، صنعتوں کی ترقی یا تنزلی، روزگار کے مواقع بڑھانے، ترقی کی رفتار تیز کرنے، ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات کے تعین اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری لانے کے لیے حکومت کو مشورہ دیتی ہے۔

یہ کونسل خاص طور پر بجٹ سے پہلے بجٹ کی تیاری اور تجاویز میں حکومت پاکستان کو مشورے دے سکتی ہے اور مختلف شعبوں کے لیے بجٹ کی تجاویز، مختلف شعبوں کے مسائل، پستی اور تنزلی یا زوال کے اسباب تلاش کر کے انہیں دور کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو تجاویز دے سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان تشکیل نو کے بعد بننےوالی  27 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سربراہ جبکہ وزیر خزانہ اس کے وائس چیئرمین ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی غیر موجودگی کی صورت میں وزیر خزانہ اس کی صدارت کرسکیں گے۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ شوکت ترین سمیت کوئی نجی شعبے کا رکن اس کونسل کی سربراہی نہیں کرے گا۔

وزیر اعظم نے اقتصادی مشاورتی کونسل کیوں بنائی؟

وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو کردی ہے۔ اس سے قبل بھی وزیر اعظم عمران خان سال 2019 میں بھی معاشی امور پر مشاورت کے لیے کونسل تشکیل دے چکے ہیں اور ان میں چند ناموں پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم کے معاشی اور سیاسی شعبوں میں اہم اقدامات

وزیر اعظم عمران خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے دور حکومت کے آخری 2 سال میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے ملک کے معروف بینکرز، اسٹاک مارکیٹ ماہرین، صنعت کار اور ماہرین معاشیات کی مدد اور مشاورت چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے ڈھائی سال میں معاشی ترقی کی شرح انتہائی سست، صنعتیں سست روی کا شکار اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ آئے روز مہنگائی کے بڑھتے گراف اور تیل اور بجلی کے بڑھتے دام عوام کے معاشی امور کو اجیرن کر رہے ہیں۔

کونسل میں کون کون شامل ہے؟

اقتصادی مشاورتی کونسل کے سرکاری ممبران میں 5 وفاقی وزراء شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ کابینہ میں  وزیر توانائی عمر ایوب، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر صنعت، وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ سید فخرامام اور وزیر اقتصادی امور خسرو بختیار معاشی مشاورتی کونسل میں شامل ہیں۔

مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد اور مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین بھی مشاورتی کونسل کا حصہ ہیں۔

معاونین خصوصی برائے اوورسیز ذوالفقار علی بخاری، معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر، معاون خصوصی برائے  ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود بھی کونسل میں شامل ہیں۔ جبکہ چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی مشاورتی کونسل کے رکن مقرر کیے گئے ہیں۔

کونسل میں شامل 13 نجی شعبہ کے ارکان

اقتصادی مشاورتی کونسل کے نجی ارکان میں سابق وزیر خزانہ اور سلک بینک کے سربراہ شوکت ترین، سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، سابق گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامک کے وائس چانسلر ڈاکٹر راشد امجد، ماہر معاشیات اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ادارہ برائے پائیدار ترقی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے پروفیسر اعجاز نبی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ حبیب بینک کے چیف آپریٹنگ آفیسر سلطان الانا، عارف حبیب سکیورٹی کے سربراہ عارف حبیب، لکی سیمنٹ اور لکی گروپ کے سربراہ محمد علی ٹبہ، پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے ڈائریکٹر فاروق رحمت اللہ اور زید علی محمد کو بھی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔

اقتصادی مشاورتی کونسل پر تنقید کیوں اور خدشات کیا ہیں؟

تنقید نگاروں کے مطابق دنیا بھر کی بڑی معیشت میں ایسی مشاورتی کونسل کی مثالیں صرف اکا دکا ہی ہیں اور جہاں ہیں وہاں کاروبار کے آداب ایسے ہیں کہ مختلف لابیز کا فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں پہلے ہی معاشی فیصلوں میں مختلف لابیز اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ لابیز مسلسل اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں۔

پاکستان میں پہلے ہی بڑے جاگیر داروں کی لابیز، صنعت کاروں کی لابیز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، اسٹاک مارکیٹ اور توانائی کے شعبوں کی لابیز معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسے میں اقتصادی مشاورتی کونسل میں مقرر کیے گئے مختلف لابیز کے لوگ اپنے شعبوں کے تحفظ کو ہی ترجیح دیں گے۔

شوکت ترین سلک بینک کے روح رواں ہیں اور بینکنگ شعبے میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اقتصادی مشاورتی کونسل میں ان کی ترجیحات بینکنگ کے شعبے کا تحفظ ہی ہوں گی۔

اعتماد کا ووٹ
The Print

سلطان علی الانا حبیب بینک کے سی ای او ہیں اور ان کا بینک ملک کے مختلف بینکوں سے مقابلے پر ہے۔ ان کے مقابل بینکاروں کی نسبت سلطان علی الانا کو اب نمایاں مقام حاصل ہے۔

علی محمد تبہ کا تعلق لکی گروپ سے ہے اور وہ سیمنٹ اور تعمیرات کے شعبے میں گہرے معاشی مفادات رکھتے ہیں۔ اقتصادی مشاورتی کونسل میں ان کا کردار اپنے شعبے کی ترقی پر ہوگا۔

عارف حبیب ’عارف حبیب سکیورٹی‘ کے سربراہ ہیں۔ اقتصادی مشاورتی کونسل میں ان کی ترجیحات کا محور اسٹاک مارکیٹ اور ریئل اسٹیٹ شعبہ ہوگا اور ان کی ماہرانہ آراء اپنے شعبوں کی ترقی کے گرد ہی گھوم رہی ہوں گی۔

تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اقتصادی مشاورتی کونسل میں اسٹیٹ بینک کے 3 سابق اور ایک موجودہ گورنر شامل ہیں۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر شمشاد اختر اور سید سلیم رضا ہیں جبکہ موجودہ گورنر رضا باقر ہیں۔ ان سے معاشی ترقی کے لیے حکمت عملی کی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں لیکن ان سب کے معاشی خیالات اور رجحانات 80 اور  90 کی دہائی کی معاشی پالیسیز کے گرد گھومتی ہیں۔

موجودہ ڈجیٹل معیشت، ڈجیٹل سرمایہ کاری، بٹ کوائن یا اسی طرح کی جدید آن لائن سرمایہ کاری، منافع، ڈجیٹل اثاثوں اور مستقبل کی ڈجیٹل ریگولیشن اور ڈجیٹل مارکیٹس میں ان کی صلاحیتیں کم ہیں۔

ڈاکٹر عابد سلہری، ڈاکٹر راشد امجد اور ڈاکٹر سلمان شاہ اور اعجاز نبی ماہر معاشیات ہیں اور اقتصادی مشاورتی کونسل کو معاشی حکمت عملی، مائیکرو اکنامک اسٹیبلٹی اور سماجی شعبوں کی ترقی سے متعلق اپنی آراء دے سکتے ہیں۔

تنقید نگاروں کی رائے میں موجودہ اقتصادی مشاورتی کونسل میں پالیسی سازوں کی تعداد کم ہے جبکہ کونسل میں مختلف شعبہ جات جیسے بینکنگ، سیمنٹ، اسٹاک مارکیٹ، توانائی، پیٹرولیم کی شخصیات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے تو انہوں معاشی ماہرین کو اس کونسل میں زیادہ جگہ دی تھی۔

تنقید نگاروں کی رائے میں موجودہ اقتصادی کونسل میں ایسے معاشی ماہرین کو شامل کیا گیا ہے جو کہ اپنی رائے میں ہومیو پیتھک اثر رکھتے ہیں۔

اقتصادی مشاورتی کونسل میں حکومت پر بڑے پیمانے پر تنقید کرنے والے ماہرین معاشیات کو شامل نہیں کیا گیا ہے جن میں ڈاکٹر اشفاق حسن، ثاقب شیرانی، ڈاکٹر حفیظ پاشا اور ڈاکٹر قیصر بنگالی ایسے معاشی ماہر ہیں جو موجودہ حکومت پر بڑے پیمانے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر