مسابقتی کمیشن کا پی ایس ایم اے اور شوگر ملز کو تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

کمپٹیشن کمیشن نے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی پر 81 ملز کو 44 ارب روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی پر پی ایس ایم اے اور شوگر ملز کو 44 ارب روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

سی سی پی نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کمپٹیشن مخالف سرگرمیوں پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن ( پی ایس ایم اے ) اور 81 ممبر ملز کے خلاف کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی کے تحت آڈر پاس کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

“میڈ ان پاکستان” فور جی اسمارٹ موبائل فونز کی پہلی کھیپ برآمد

کمیشن نے حال ہی میں شوگر انڈسٹری میں ممکنہ کمپٹیشن مخالف سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کا آغاز کیا تھا۔ اس حوالے سے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کے تحت پی ایس ایم اے کے دو دفاتر اور ایک شوگر مل کا سرچ انسپیکشن کیا گیا تھا۔

کمیشن کی جانب سے عائد کیا گیا جرمانہ اب تک کا سب سے بڑا جرمانہ ہے ، کمیشن کے پاس دستیاب 55 ملوں کے 2019 کے سالانہ کاروباری حجم پر مبنی ریکارڈ موجود ہے، جو تقریبا 44 ارب روپے بنتا ہے۔ جرمانے کی تفصیل درج ذیل ہے۔

(1) پی ایس ایم اے کو کمپٹیشن ایکٹ کی چار مختلف خلاف ورزیوں پر الگ الگ 75 ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے ، جو کہ مجموعی طور پر 300 ملین روپے بنتا ہے۔

(2) سندھ ، خیبر پختونخوا ہ اور پنجاب میں واقع ہر رکن مل کو 2012 سے 2020 کے عرصے کے دوران گٹھ جوڑ سے ایکسپورٹ کوٹہ مختص کرنے اور متعلقہ مارکیٹ میں چینی کی ڈومیسٹک سپلائی کو متاثر کرنے پر ملوں کے 2019 کے سالانہ کاروباری حجم کا 5 فیصد جرمانہ عائد کیا۔

(3) 2012 سے 2020 کی مدت کے دوران ، پنجاب میں واقع ہر ممبر مل کو پی ایس ایم اے کے ساتھ حساس تجارتی معلومات تبادلے پر اُن کے 2019 کے سالانہ کاروباری حجم کا 7 فیصد جرمانہ عائد کیاگیا

(4)  2010 کے یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کے ٹینڈر میں ملی بھگت کرنے پر 22 ممبر ملوں کو الگ الگ 50 ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

اس معاملے پر کمیشن کا ایک مکمل چار رکنی بنچ ، جس میں راحت کونین حسن (چیئرپرسن) ، شائستہ بانو (ممبرکمیشن ) ، بشریٰ ناز ملک (ممبر کمیشن) اورمجتبیٰ احمد لودھی (ممبر کمیشن) شامل ہیں، تشکیل دیا گیا تھا۔ پس منظر کے حقائق ، ایشوز کی تشکیل ، تکنیکی اعتراضات کا تعین ، متعلقہ مارکیٹ کا تعین، شوگر کی کرشنگ بند کرنے اور اسپل اوور اثرات جیسے معاملات پر بینچ کے چاروں ارکان کے در میان اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ بینچ کے دو ارکان شائستہ بانو اور بشریٰ ناز ملک نے بینچ کے باقی کے دو ارکان راحت کونین حسن اور رمجتبیٰ احمد لودھی کی رائے سے اختلاف کیا۔ اس صورتحال میں کمیشن کو ڈیڈ لاک کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا ایکٹ کے مجموعی مقصد اور انٹینٹ پر غور فکر کرنے کے بعد چیئرپرسن نے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے اپنے دوسر ے کاسٹنگ ووٹ کا حق کمپٹیشن ایکٹ کے تحت استعمال کیا ۔ یہ پہلا موقع ہے جب کمیشن نے اختلافی فیصلہ دیا ہے۔

کمیشن کے اکثریتی فیصلے کے مطابق ، پی ایس ایم اے اور پنجاب کی شوگر ملوں نے کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجارتی حساس معلومات کا تبادلہ کیا۔ کمیشن کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چینی کی سپلائی اور ذخیرے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے، پی ایس ایم اے اور شوگر ملز نے گٹھ جوڑ سے اجتماعی طور پر ایکسپورٹ کوٹے آپس میں طے کیے، جو کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ہے۔

یو ٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کے ٹینڈر کے حوالے سے کمیشن کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ پی ایس ایم اے نے ایک ایسوسی ایشن کے طور پر اپنے کردار سے آگے بڑھ کر ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخصوص ممبر ملز کے درمیان مقدار طے کرکے ٹینڈرز کے ایوارڈ میں مداخلت کی ہے۔ تاہم ، پی ایس ایم اے کی کال پر پنجاب کی 15 ملز کی جانب سے کرشنگ سیزن 2019-2020 میں کرشنگ روکنے کے حوالے سے ناکافی شواہد ہونے پر کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ثابت نہیں ہو سکی۔ کمیشن نے اپنے آڈر میں درج ذیل ہدایات جاری کی ہیں۔

(1) وہ ملز جن کے سالانہ کاروبار حجم کا ڈیٹا کمیشن کے پاس دستیاب نہیں وہ جلد کمیشن کو دستیاب کیا جائے ۔

(2)  کمیشن کا رجسٹرار حساس کاروباری معلومات کے غیر قانونی تبادلے پر سندھ اور کے پی کے میں واقع تمام ممبر ملز کو شوکاز نوٹس جاری کرے گا۔

(3) گنے کی کرشنگ بند کرنے کے حوالے سے معاملے کو مزید تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔

(4)  پی ایس ایم اے اور تمام ممبر شوگر ملز مذکورہ خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روک دیں اور حکم جاری ہونے کے 60 دن کے اندر اندر جرمانہ جمع کرائیں۔

متعلقہ تحاریر