ملکی مسائل کا حل ٹینکوکریٹس کی حکومت ہے ، محمد علی ٹبہ

معروف بزنس ٹائیکون کا کہنا ہے سیاسی بنیادوں پر قائم گورنمنٹ وہ مشکل فیصلے نہیں لے سکتی جس کی اس ملک کو ضرورت ہے کیونکہ ان کے اپنی بین الاقوامی انٹریسٹ ہوتے ہیں۔

پاکستانی معیشت کی حالت زار اور روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت میں اضافے نے قرضوں میں اربوں روپے کا اضافہ کردیا ہے، پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت محمد علی ٹبہ نے کہا ہے کہ پریکٹیکلی طور پر ہم ڈیفالٹ کرچکے ہیں اگر ہم نے معیشت کو بچانا ہے تو ہمیں ٹینکوکریٹس کی حکومت لانی ہو گی جو مشکل فیصلے کرے گی۔

بزنس جرنلسٹ فاروق بلوچ کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد علی ٹبہ کا کہنا تھا ٹینکو کریٹس کی حکومت ہو گی ، مشکل ترین فیصلے کرنے ہوں گے ، کیونکہ پولیٹیکل گورنمنٹ یہ فیصلے نہیں کرسکتی ہے ، کیونکہ ان کے اپنے بین الاقوامی انٹریسٹ ہوتے ہیں ، وہ صنعت کار ہوتے ہیں ، وہ لینڈلارڈز ہوتے ہیں ، اس کا حل یہ ہے کہ آپ کوئی دو چار سال کے لیے ٹینکوکریٹس کی حکومت لے آئیں تاکہ وہ انقلابی ریفارمز کریں تو ملک چلے گا ۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کے تاجر قومی جذبے کے تحت رات 9 بجے دکانیں بند کرنے پر راضی

حکومت کو کہتا ہوں نمبرز جھوٹ نہیں بولتے ، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پاپولیشن گروتھ 2.5 فیصد پہنچ گئی ہے ، پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں ، گیس کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے، موجودہ صورتحال میں افراط زر کی سطح 16 سے 17 فیصد تک آجائے گی ، یہ جو کہہ رہے ہیں کہ معیشت کی ترقی کی شرح ترقی 5 فیصد رہے گی ایسا نہیں بلکہ دو ڈھائی فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔

محمد علی ٹبہ کا کہنا تھا حکومت نے بجٹ میں جو نمبرز دیئے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ پاکستانی گورنمنٹ بینک کرپٹ ہے ، مگر لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے ، 50 فیصد لوگوں کے پاس "اَن ڈاکومنٹڈ” پیشہ ہے ، جس کا وہ ٹیکس بھی نہیں دیتے ہیں۔

بزنس ٹائیکون محمد علی ٹبہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کے اندر ترسیلات زر تین ذرائع سے آتے ہیں ، فرسٹ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) ، سیکنڈ از ریمیٹینسس اور تھرڈ از آپ کی ایکسپورٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ان تینوں ذرائع سے 80 سے 90 ارب ڈالر سالانہ بنیادوں پر نہیں آئیں گے آپ کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں محمد علی ٹبہ کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ایکسپورٹ وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی ، اور آپ کے پاس زرمبادلہ کے وسائل اتنے بھی نہیں جو ہونے چاہیے تھے، معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت کو کم از کم 17 ارب ڈالر کی ماہانہ بنیادوں پر ضرورت ہے۔ انڈیا کی ایف ڈی آئیز سالانہ 100 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فارن انویسٹر کے لیے ایسا ماحول بناتے ہیں جس سے غیرملکی سرمایہ کار ان کے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے آتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس سسٹم میں بہت زیادہ اصلاحات کی ہیں جو غیرملکی سرمایہ کاروں کو انڈیا کی جانب راغب کرتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ٹیکس سسٹم میں آج تک وہ انقلابی اصلاحات نہیں کی گئی ہیں جو ہونی چاہیے تھیں۔

متعلقہ تحاریر