وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے میں اسٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ لی

بینک دولت پاکستان نے ربا کے مقدمے میں 28 اپریل 2022ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جیسا کہ محترم وزیر خزانہ پہلے ہی کرچکے ہیں۔ خاص طور پر ہم فیصلے کے عملی حصے کو سراہتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مالی اور زری فریم ورک کے بنیادی محافظ اور ضابطہ کار کی حیثیت سے اسٹیٹ بینک ملک کے مالی شعبے، جو عالمی مالی نظام کے حصے کے طور پر عمل کرتا ہے، کے استحکام اور سلامتی کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے احکامات کی تعمیل کو یقینی بنانے کا بھرپور عزم رکھتا ہے خصوصاً ربا سے متعلق احکامات کے حوالے سے۔

یہ بھی پڑھیے

باؤاسٹیل نے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، سی سی او پی

مسلسل دوسرے ہفتے مہنگائی کا سونامی عوام سے ٹکرا گیا

اس تناظر میں اسٹیٹ بینک ملک میں اسلامی بینکاری کو فروغ دینے میں ہمیشہ آگے آگے رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک دنیا بھر کے ضابطہ کار اداروں میں سے ان چند ایک میں شامل ہے جہاں جامع قانونی، ضوابطی اور شریعہ گورننس کے فریم ورکس کامیابی سے تشکیل دیے گئے ہیں اور نافذ کیے گئے ہیں۔

اس وقت ملک بھر میں 22 اسلامی بینکاری ادارے (5 مکمل اسلامی بینک اور 17 روایتی بینک جن کی علیحدہ اسلامی بینکاری برانچیں ہیں) کام کررہے ہیں جن کا برانچ نیٹ ورک 3983 برانچوں پر مشتمل ہے اور 1418 اسلامی بینکاری ونڈوز (روایتی برانچوں میں اسلامی بینکاری کاؤنٹر) ہیں۔ یہ شعبہ اثاثہ جات کے لحاظ سے ملک کے پورے بینکاری نظام کے 19.4 فیصد پر مشتمل ہے اور ڈپازٹس کے لحاظ سے 20 فیصد حصہ رکھتا ہے  (31 مارچ 2022ء تک)۔

علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک شریعت کے اصولوں کے مطابق قانونی اور ضوابطی انفراسٹرکچر لانے کے لیے بھی اقدامات کررہا ہے۔

فیصلے کے مفصل جائزے کے بعد ہمارے قانونی مشیر اعلیٰ اور بیرونی وکیل کے مشورے کی بنیاد پر ہم نے سپریم کورٹ کی عزت مآب شریعت اپیلٹ بینچ سے عملدرآمد اور عملی نکات کے حوالے سے رہنمائی کی درخواست کی ہے۔

متعلقہ تحاریر