موجودہ حکمرانوں کے مشکل فیصلے اپنے لیے یا عوام کے لیے، ذرا وضاحت کردیں
پی ٹی آئی حکومت کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے موجودہ حکمران اپنے بیانات میں کہا کرتے تھے کہ عمران خان معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کرنے کی داستاتیں رقم کررہے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کرنے کی داستان رقم کی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے یہ مشکل فیصلے حکمران اپنے لیے کررہے ہیں یا عوام کےلیے ، کیونکہ ان فیصلوں کے تمام اثرات براہ راست عوام پر پڑتے ہیں۔
گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد اور قمر زمان کائرہ اور صوبائی وزیر قانون ملک احمد خان نے چار پریس کانفرنسز کیں۔
یہ بھی پڑھیے
بندرگاہوں پر پھنسے 85 لگژری درآمدی اشیا کے 900 کنٹینرز ریلیز کرنیکا فیصلہ
سینئر وکیل فیصل نقوی نے اسحاق ڈار کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھول دیا
ان چاروں پریس کانفرنسز ایک چیز جو مشترکہ تھی کہ ہم اس حکومت میں شوق سے نہیں آئے، ہمیں اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کےلیے حکومت لینی پڑی ۔ ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو ہم نے سنبھالا دینا ہے اور عوام کی بدحالی کا سدباب کرنا ہے ۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے۔
عوام کے خیرخواہ حکمرانوں کے مشکل ترین فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تقریباً اشیائے ضروریہ کی ہر چیز کی قیمت میں تقریباً 100 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت نے جو مشکل فیصلے کیے ہیں ، اس سے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، پیٹرولیم مصنوعات ، ڈالر ، اشیائے ضروریہ اور دیگر زندگی کی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان کو چھونےلگی ہیں۔
عمران خان کی پریس کانفرنس اور مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی پریس کانفرنسز
دو روز قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اتحادی حکومت کی معاشی پالیسیز پر تنقید کرتے ہوئے ملک کے تباہ کن قرار دیا تھا ، جس کے جواب میں مریم اورنگزیب، رانا ثناء اللہ، ملک احمد خان، خواجہ سعد رفیق اور قمر زمان کائرہ نے چار پریس کانفرنسز کیں تھیں۔
اپریل 2022 سے جون 2022 تک مہنگائی کی شرح اضافہ
نیوز 360 کو ایک کامرس رپورٹر کی جانب سے موصول ہونے والے رپورٹ کے مطابق اپریل 2022 سے جون 2022 تک پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں بالترتیب 89 فیصد اور 69 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ آٹے کی قیمت میں 29 فیصد، دالوں کی قیمت میں 56 فیصد، گھی کی قیمت میں 21 فیصد، دودھ کی قیمت میں 14 فیصد، گاڑیوں کی قیمت میں 21 فیصد اور امریکی ڈالر کی قیمت میں 30 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے اعدادوشمار سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران یہ مشکل فیصلے اپنے لیے کررہے ہیں یا عوام کےلیے؟ اگر عوام کے لیے تو عوام تو مہنگائی سے مر رہی ہے ، خودکشیاں کرنے پر مجبور ہے اور اگر حکمران اپنے لیے یہ مشکل فیصلے کررہے ہیں تو بتائیں کہ ان اس مہنگائی سے کیا فرق پڑ رہا ہے، انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ تیل کا ایک کلو کا پیکٹ کتنے کا آتا ہے اور آج کتنے افراد نے غربت کے ہاتھوں تنگ کر خودکشی کی ہے ۔ وہ لگژری گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ، سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے میٹرو بس کا ایک ماہ سفر بالکل فری کروا رہے ہیں، اگر حکمرانوں کی عیاشیاں اسی طرح سے جاری رہیں تو ملک کو معاشی بحران سے کون نکالے گا۔
ایندھن میں اضافے کے بعد مہنگائی کی لہر
پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی زیر قیادت مخلوط حکومت نے یکم جولائی کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرتے ہوئے عوام پر پیٹرول بم گرایا تھا۔ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
یکم جولائی سے پیٹرول کی قیمت میں 14 روپے 85 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا اور پیٹرول کی قیمت 248 روپے 74 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی۔
ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے 23 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 54 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی۔
مٹی کے تیل کی قیمت میں 18 روپے 83 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا اور مٹی کے تیل کی قیمت 230 روپے 26 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔
لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 18 روپے 68 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا جس سے لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 226 روپے 15 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی۔
حکومت نے پیٹرول ، ہائی اسپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل اور ہائی اوکٹین پر 5 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کردی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے سے عوام سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے حکومت کے فیصلوں سے ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ، حکومت ان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔