توانائی کا شعبہ ملک کا سب سے بڑا خسارے کا شعبہ بن گیا

گزشتہ برس توانائی کے شعبہ کو ایک ہزار 72 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

بجلی کی پیداوار کے ایک ہزار 72 ارب وصول نہیں کئے جاسکے، اس طرح توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کا حجم 2 ہزار 253 ارب روپے ہو گیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ برس بجلی پیداوار پر خرچ ہونے والی رقم میں سے 1072 ارب روپے وصول نہ کئے جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری، 24 اگست کو بورڈ میٹنگ بلانے کاامکان

حکومت کے سخت اقدامات سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیاہے، مفتاح اسماعیل

اس طرح توانائی کا شعبہ ( پاور سیکٹر) ملک کا سب سے زیادہ خسارہ میں چلنے والا شعبہ بن گیا جبکہ سوا کروڑ بجلی صارفین ایک تہائی بل بھی ادا نہیں کرتے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانی کا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جس کی صدارت سردار ریاض محمود خان مزاری نے کی۔

اجلاس میں سیکرٹری توانائی نے انکشاف کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ نقصان میں چلنے والا شعبہ توانائی کا ہے جس پر حکومت کو قومی خزانے سے بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس توانائی کے شعبہ کو ایک ہزار 72 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ گزشتہ برس بجلی کی پیداوار پر 2 ہزار 892 ارب روپے خرچ کئے گئے جبکہ صرف 1 ہزار 535 ارب روپے وصول کئے جاسکے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں بجلی کے صارفین کی تعداد 3 کروڑ 65 لاکھ ہے جن میں گھریلو صارفین 3 کروڑ 15 لاکھ ہیں۔

کمیٹی کو متعلقہ حکام نے بریفننگ میں بتایا کہ ایک کروڑ 20 لاکھ صارفین بجلی قیمت کا ایک تہائی بھی ادا نہيں کرتے، جس پر حکومت کو انہیں سبسڈی دینی پڑتی ہے۔

سیکرٹری توانائی نے اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ ماہ ایل این جی کا اسپاٹ کارگو 40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مل رہا تھا، یہ گیس اتنی مہنگی تھی کہ اس سے بجلی 70 روپے فی یونٹ پیدا ہوتی۔ پیٹرولیم ڈویژن کی ہدایت پر مہنگی ایل این جی نہ خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ مستقبل میں کوئی پاور جنریشن پلانٹ نہیں لگایا جائے گا جو ایندھن پر بجلی پیدا کرے۔

متعلقہ تحاریر