پاکستان کو اے ڈی بی اور اے آئی آئی بی سے 2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے، عائشہ غوث پاشا

وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب پہلے ہی 3 ارب ڈالر سے زائد کا قرض دے چکا ہے جبکہ قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بدھ کے روز کہا کہ پاکستان کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے 1.5 بلین ڈالر اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک ( اے آئی آئی بی) سے 500 ملین ڈالر سمیت 2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

یہ بھی پڑھیے

ہم نیٹ ورک نے گزشتہ مالی سال 1.39 ارب روپے کا خالص منافع کمایا

2018-19 میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل غیرشفاف تھا، اسٹیک ہولڈرز گروپ

وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ "ہم سب ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں اور مختلف مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے رقوم ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب پہلے ہی 3 ارب ڈالر سے زائد کا قرض دے چکا ہے جبکہ قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے روشنی ڈالی کہ تباہی حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہوئی جو کہ ایک قدرتی آفت تھی۔ یہ تمام قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ بحران سے نکلنے میں ہماری مدد کرے۔

وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک نقصانات کا تعین کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت اجلاس میں ارکان کی جانب سے موجودہ معاشی صورتحال بالخصوص بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضہ پروگرام کی بحالی کے باوجود روپے کی قدر میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اراکین نے مطالبہ کیا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کمیٹی کو ملکی معاشی صورتحال پر بریفنگ دیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے "The State-Owned Enterprises (Governance and Operations)” کے عنوان سے بل کو اکثریتی رائے (ووٹ) سے مسترد کر دیا، جبکہ سینیٹر شوکت فیاض احمد ترین نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ حکومت سابقہ ​​حکومتی بل کی توثیق نہ کرے اور اپنی پالیسیوں کی روشنی میں نئے بل بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو گڈ گورننس کے لیے کسی بل کی ضرورت نہیں ہے۔

کمیٹی نے بینکوں کی جانب سے ایل سی کے اجراء پر زائد چارج کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔

سینیٹر شوکت ترین نے بتایا کہ اس بڑھتے ہوئے مسئلے کی وجہ سے تاجر شنگھائی سے درآمد شدہ سامان کی ادائیگی دبئی کے اکاؤنٹس سے کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بینکوں نے 240 روپے یا اس سے اوپر کی ایل سی جاری کی ہیں جب انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 230 روپے تھی اور بینکوں کے منافع میں تقریباً 100 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ UBL اور بینک الحبیب کے حکام نے بتایا کہ اگست میں انہیں بالترتیب 700 ملین اور 500 ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔

متعلقہ تحاریر