پاکستان ریلویز دیوالیہ ہونے کے قریب، 3دن کے ذخیرے کیساتھ ٹرینیں چلانے کاانکشاف
کچھ دن پہلے ریلوے کے پاس پورے ملک میں صرف ایک دن کا تیل بچا تھا، اس امر نے حکام کو خاص طور پر کراچی اور لاہور سے مال بردار ٹرین کے آپریشن کومحدود کرنے پر مجبور کیا، روزنامہ ڈان کا سینئر اہلکار کے حوالے سے دعویٰ
پاکستان ریلویز شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوگئی۔ مسافر اور مال بردار ٹرینیں صرف تین دن کے تیل کے ذخائر کے ساتھ چلائی جارہی ہیں جو کم از کم ایک ماہ کا ہونا چاہیے۔
کچھ دن قبل محکمے کے پاس صرف ایک دنکا تیل کا ذخیرہ رہ گیا تھاجس کی وجہ سے ریلوے کو اپنے مال بردار آپریشن کو محدود کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
ایف بی آر رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام
حکومت کا آئندہ 15 روز پٹرولیم منصوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ
دوسری جانب ریلویز کے مختلف اثاثے بشمول رولنگ سٹاک، لوکوموٹیو اور انفراسٹرکچر، اعلیٰ حکام کی جانب سے مبینہ طور پر نااہلی، لاپروائی، استعداد اور فیصلہ سازی کی وجہ سے کم استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام اور بدامنی آگ پر تیل کاکام کر رہی ہے۔
روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی خالد حسنین کی خبر کے مطابق ایک سینئر سرکاری ذرائع نے بتایا کہ”کچھ دن پہلے، ریلوے کے پاس پورے ملک میں صرف ایک دن کا تیل بچا تھا۔ اس امرنے حکام کو خاص طور پر کراچی اور لاہور سے مال بردار ٹرین کے آپریشن کومحدود کرنے پر مجبور کیا۔محکمہ ریلوے کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میرے خیال میں اگر حکومت محکمے کو نظر انداز کرتی رہی تو ریلوے ڈیفالٹ ہو جائے گا“۔
سینئر افسرنے کہا کہ” محکمے کی مالی حالت تقریباً تباہی کے قریب پہنچ چکی ہے کیونکہ اس کے پاس گزشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے میں ریٹائر ہونے والے متعدد اہلکاروں/افسران کے لیے تقریباً 25 ارب روپے کی واجبات کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے۔ اسی طرح انہوں نے انکشاف کیا کہ محکمہ ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں اور ریٹائرڈ اہلکاروں کی پنشن بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہے“۔
ہلکار نے بتایا کہ”جن لوگوں کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ اور پنشن ملنی تھی انہیں 15 سے 20 دن کے وقفے کے بعد تنخواہ مل رہی ہے۔ حال ہی میں، ٹرین ڈرائیوروں نے ملک بھر میں ٹرینوں کو روکنے اور ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں 20 دسمبر کو بھی تنخواہ نہیں ملی تھی، اس صورتحال سے پاکستان ریلوے کی مالی حالت کا اچھی طرح اندازہ لگاسکتے ہیں“۔
ان کے مطابق مالی18-2017 اور اس سے پہلے محکمے کی مالی صحت بہتر تھی کیونکہ اس کی مال گاڑیوں کی آمدن سالانہ 20 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی، جس میں کراچی سے یوسف والا (ساہیوال) کے لیے وقف کول آپریشن سے ہونے والی آمدنی بھی شامل تھی۔ تاہم بعد میں اس میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی اور اب یہ سکڑ کر تقریباً 16 ارب روپے رہ گئی ہے، جس میں کراچی،ساہیوال کول ٹرانسپورٹیشن آپریشن سے ہونے والی آمدنی بھی شامل ہے جو افغانستان سے کوئلے کی درآمد کی وجہ سے کم ہوئی ہے۔
انہوں نے حیران ہوتے ہوئے بتایا کہ”مالی سال 23-2022 کے لیے مال برداری سے آمدنی کا ہدف 20 ارب روپے تھا۔مالی سال 23-2022 میں جولائی سے نومبر تک کا ہدف 10.2ارب روپے تھا لیکن یہ 35فیصد منفی نمو میں رہااور محکمے نے اس مد میں صرف 6.6 ارب روپے کمائے، ایسا کیوں ہوا“۔
عہدیدار نے کہا کہ چین سے نئی کوچز کی آمد کے باوجود مسافر ٹرین کے آپریشن کی صورتحال، جو کہ تقریباً 20 سے 25 ارب روپے کے درمیان ہے، میں بھی کمی آرہی ہےجبکہ سندھ اور بلوچستان میں حالیہ سیلاب نے بھی آپریشنز کو متاثر کیا، جس سے آمدنی میں کمی آئی۔
دوسری طرف، رولنگ ا سٹاک، لوکوموٹیو اور انفرااسٹرکچر کے کم استعمال کی وجہ سےمحکمہ ریلوے مالی بحران پر قابو پانے کے لیے ریونیو پیدا کرنے اور بڑھانے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس نے اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے مالی مدد طلب کی ہے۔پالیسی کے تحت محکمہ ریلوے کو اپنے آپریشن، خاص طور پر مال بردار آپریشنز میں نجی شعبے کو شامل کرنے کی ضرورت ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں یہ ایسا کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ حکام ہی بتاسکتے ہیں ۔
یہ قابل ذکر ہے کہ 2021 میں ریلوے نے اپنے رولنگ اسٹاک (مال بردار ویگنوں) کو نجی شعبے کو آؤٹ سورس کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس سلسلے میں محکمہ نے ٹینڈرز جاری کیے جس میں 13 کمپنیوں نے حصہ لیا اور فریٹ ریونیو کو (کوئلہ/ فریٹ آپریشن کو چھوڑ کر)، ایک سال میں13 ارب روپے اور5سالوں میں 35 ارب روپے تک لے جانے کا وعدہ کیا۔
لیکن جن لوگوں نے پرائیویٹ کمپنیوں کو رولنگ اسٹاک، ٹریک وغیرہ استعمال کرنے کے لیے شارٹ لسٹ کرنا تھا، انہوں نے صرف تین کمپنیوں کو منتخب کیا اور انھیں محکمہ ریلوے کے منصوبے کے فیز ون کے تحت ویگنیں چلانے کا ٹھیکہ دیا تاکہ اس کے مال بردار کاروبار کو آؤٹ سورس کیا جاسکے۔
بعد ازاں چند ماہ کے بعد لاکھوں روپے کی آمدنی کی ضامن کمپنوں نے معاہدےپر دستخط کیے بغیر کراچی سے درآمد شدہ کوئلے کو مختلف مقامات تک پہنچانے کے لیے سیکڑوں ویگنوں/رولنگ کا استعمال شروع کر دیااورپھر کچھ مسائل کی وجہ سے معاہدے سے الگ ہوگئیں۔
اہلکار نے کہا کہ یہ منصوبہ محکمہ ریلوے کی 12ہزار ویگنوں کی بتدریج آؤٹ سورسنگ کے لیے تھا۔ پہلے مرحلے کے تحت، کچھ بولی دہندگان (کل 13) نے مل کر ان ویگنوں کو چلانے کے لیے 13 ارب روپے سالانہ کی پیشکش کی لیکن محکمے نے غیر منصفانہ طور پر کچھ دوسروں کو پروجیکٹ سے نوازا۔ یہ کمپنیاں معاہدے پر دستخط کیے بغیر تقریباً 300 ویگنیں (کراچی سے داؤد خیل اور جیا بگا) چلاتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ””اگر پاکستان ریلویز اچھی شہرت کی حامل کمپنیوں کی جانب سے 13 ارب روپے کی گارنٹی کی پیشکش قبول کر لیتی تو اس نے اتنی بری صورتحال نہ دیکھی ہوتی“۔
انہوں نے کہا کہ مال برداری کی آمدنی میں اضافہ اور اسے 35 ارب روپے تک لے جانے کا عمل نقصانات کو کم کرنے اور سرکاری ادارے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سےمحکمے کی مالی حالت مزید بگڑ گئی۔ انہوں نے کہا کہ غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے محکمہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
اہلکار نے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے اہم مسائل پر توجہ دینے اورانہیں ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ”ٹرین چلانے کے لیے تیل کے ذخائر کو ایک ماہ سے لے کر دو دن تک نچوڑنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ ریلویز کی مالی صورتحال واقعی بہت مشکل میں ہے“۔
انہوں نے کہاکہ”وزیرموصوف کونجی شعبے کی حوصلہ شکنی کا سبب بننے والے مالی بردار ویگنوں کی بولی کے معاملات کی بھی انکوائری کرنی چاہیے ۔انہوں نے نشاندہی کی کہ”پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت آؤٹ سورسنگ ویگنوں اور فریٹ ٹرمینلز کی تعمیر کے حالیہ ٹینڈرز میں، چار ماہ یا اس سے زیادہ گزرنے کے باوجود ابھی تک فیصلے نہیں کیے گئے“۔
ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ ملک کے مال برداری کے کاروبار میںمحکمہ ریلوے کا حصہ صرف 4 فیصد سے زیادہ ہے جسے 25 فیصد تک لے جانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ”حالیہ دنوں میں اعداد و شمار کو صرف 2 فیصد تک نچوڑا گیا ہے، جس کی وجہ سے محصولات میں کمی آئی ہے اور مالیاتی بحران پیدا ہوا ہے“۔
روزنامہ ڈان نے محکمہ ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان صادق شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان حقائق کو تسلیم کیا کہ پاکستان ریلوے ان دنوں شدید مالی بحران سے گزر رہی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ”ہم تیل کے 3 دن کے ذخیرے کے ساتھ اپنی ٹرینیں چلا رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اسے ایک ماہ تک برقرار رکھنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ محکمہ ریلوے کی مالی حالت دوسرے محکموں کی طرح، حکومت کی حیثیت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جو خود بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے“۔
سلمان شیخ نے چند روز قبل ایک دن کے تیل کے ذخیرے اور مال بردار ٹرین آپریشن کو محدود کرنے سے متعلق معلومات کو غلط قرار دیا۔انہون نے کہاکہ”یہ سچ ہے کہ ہم نے مال بردار ٹرین کے آپریشن کو محدود کر دیا ہے لیکن یہ کارگو کے کاروبار میں کمی کی وجہ سے ہے نہ کہ تیل کے ذخیرے کی وجہ سے ‘‘ .
سی ای او نے کہا کہ انتظامیہ کو بڑی تعداد میں ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن کو وقت پر ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریلوے کو حال ہی میں سندھ اور بلوچستان میں سیلاب زدگان اور سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے ورلڈ بینک سے ملنے والے اربوں روپے کے مالیاتی پیکیج میں سے 14 ارب روپے ملے ہیں۔ ان کے بقول 14 ارب روپے صرف بلوچستان میں تباہ کن سیلاب سے تباہ ہونے والے پاکستان ریلوے کے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے ریلوے کی مجموعی مالی صورتحال کو انتہائی پریشان کن قرار دیا۔
سی ای او نے کہاکہ”حکومت اور ریلوے کے پاس پیسے نہیں ہیں۔محکمہ ریلوے کو تیل فراہم کرنے والی پاکستان اسٹیٹ آئل کو بھی تیل کی درآمدات کے لیے ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھولنے سے متعلق مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے لیے صورتحال سخت ہے ‘‘ ۔