آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی صورت میں پاکستان 10 جنوری تک ڈیفالٹ کرسکتا ہے

معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے ، اگر پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کو بحال کرانے یا غیر ملکی مالی امداد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ملک 10 جنوری تک ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔

پاکستان کو آئندہ چند دنوں میں 1.3 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنی ہوگی جس سے آئی ایم ایف پروگرام یا غیر ملکی امداد کی بحالی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے خبردار کرتے ہوئے کہا  تھا کہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ملک ڈیفالٹ میں داخل ہو جائے گا۔ انہوں نے قومی معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے قرض کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر پروگرام بحال نہ ہوا تو پاکستان کسی بھی وقت ڈیفالٹ میں داخل ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 5 ارب 82 کروڑ ڈالرز رہ گئے، وزارت خزانہ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے فیصل بینک لمیٹڈ کو اسلامی بینکنگ لائسنس جاری

حکمرانوں پر طنز کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے اقتدار میں آکر صرف اپنے کرپشن کے کیسز ختم کرائے ہیں۔

انہوں نے گذشتہ سال اپریل میں اپنی حکومت کے گرانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت معاشی محاذ پر بہترین کارکردگی دکھا رہی تھی ، مگر چوروں کو لاکر ناکام تجربہ کیا گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی ، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات فوری طور پر کرائے جائیں۔

واضح رہے گذشتہ ہفتے کہ سابق وزیر خزانہ اور رہنما مسلم لیگ ن مفتاح اسماعیل نے بھی کہا تھا کہ اگر پاکستان نے اس اہم وقت پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع نہیں کیا تو ہم ڈیفالٹ کرسکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی کانفرنس میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب سے ہم آئی ایم ایف پروگرام میں تھے ہم پہلے تین سال تک محفوظ تھے۔ اس کے بعد، انہوں نے مزید کہا: "پہلے دو سالوں میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا لیکن برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا کیونکہ ہم نے روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم کر رکھا تھا۔”

کچھ اہم اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے مفتاح نے کہا کہ گزشتہ سال برآمدات 31 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تھیں۔ آمدنی اور اخراجات میں 19 بلین ڈالر کا فرق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل آمدنی 61 بلین ڈالر تھی اور اخراجات 80 بلین ڈالر تک بڑھ گئے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سی پیک ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے قرضے دینے کے بعد کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی۔

پروگرام کے اسپیکر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ "سی پیک کو چین اور امریکہ کی ’’سرد جنگ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔”

شبر زیدی کا کہنا تھا "پاکستان کو توانائی اور بہتر انفراسٹرکچر کے لیے 50 بلین ڈالر کی ضرورت ہے، سی پیک ہماری ضرورت ہے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔”

کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شاہد وزیرات نے کہا کہ "کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں سستی برآمدات اور مہنگی درآمدات ہوتی ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس سے مقامی صنعت عالمی صنعت کے مقابلے میں باہر ہوجاتی ہے۔”

آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ "حکومت مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی کرے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے لگژری آئٹمز کی درآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔”

تاہم گذشتہ خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک مرتبہ دعویٰ  کیا کہ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور سنگین مسائل کے باوجود ملک "پیرس کلب سے رجوع نہیں کرے گا – جو کہ دولت مند قرض دہندگان کا ایک گروپ ہے۔

وزیر خزانہ کا یہ بیان 28 دسمبر کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی ایک تقریب سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کے دوران سامنے آیا تھا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے اور اس کی معیشت مستحکم ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کو ایسی صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے۔

وزیر نے کہا کہ انہیں وزیر خزانہ کا چارج سنبھالے تین ماہ ہو گئے ہیں اور ہر روز کہا جاتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ "ڈیفالٹ کیسے ہوگا؟ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے گا۔”

وزیر خزانہ کہنا تھا کہ 2014 میں بھی ملک کے ڈیفالٹ کی باتیں تھیں، پھر اس ملک کے بارے میں دنیا کی بہترین معیشت بننے کی بات ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں بہت پوٹینشل موجود ہے، میں پاکستان کے ایشوز کو ہینڈل کر رہا ہوں، انشااللہ جلد پاکستانی معیشت بہتر ہو گی۔

افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ حالات مشکل ضرور ہیں مگر پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

ڈار نے کہا، "میں بحث میں کسی کو بھی ثابت کر سکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹی موٹی سیاست اور مقاصد کے لیے ہم ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔”

وزیر نے کہا کہ 2016 میں جب انہوں نے وزیر خزانہ کا عہدہ چھوڑا تو پاکستان کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 62 فیصد تھا اور اب 72 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 110 فیصد، جاپان کا 257 فیصد اور برطانیہ کا کوویڈ کے بعد 101 فیصد ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حکومت کو ایسی پالیسیز ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس سے سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کی ترغیب ملے ، تاجر برادری کو بھی پاکستان کے لیے سوچنا ہوگا کیونکہ وہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے تاجروں کا معیشت کو مضبوط کرنے میں ہمیشہ بڑا کردار رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر