اسلام آباد ہائیکورٹ ہتک آمیز مواد ہٹانے کا اختیار ختم کرچکی، پی ٹی اے

اداکاراؤں کیخلاف جو مواد ہٹاسکتے تھے ہٹادیا، باقی مواد ہٹانے کیلیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہدایت جاری کی جائے یا اداکاراؤں کو خود ان سے رجوع کرنے کا کہا جائے، پی ٹی اے کا مہوش حیات اور کبریٰ خان کی درخواستوں پر سندھ ہائیکورٹ میں جواب

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ کے سامنےموقف اپنایا ہے کہ اس کے پاس سوشل میڈیا سے ہتک آمیز مواد ہٹانے یا بلاک کرنے  کا اختیار نہیں ہے، سندھ ہائیکورٹ کو اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز  کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔

پی ٹی اے نے  دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال اپریل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کا  سوشل میڈیا سے ہتک آمیز مواد ہٹانے کا اختیار ختم کر دیا تھا اور تجویز دی تھی کہ درخواست گزار کو شکایت کے ازالے کے لیے براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے رجوع کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

عادل راجہ کے الزام پر کبریٰ خان، مہوش حیات اور سجل علی کاسخت ردعمل

اپنے خلاف گھٹیا مہم پر اب چپ نہیں بیٹھوں گی، مہوش حیات

جمعرات کو  جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اداکارہ مہوش حیات اور رابعہ اقبال خان عرف کبریٰ خان  کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہتک آمیز مواد کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی ۔ اس موقع پر پی ٹی اے اور ایف آئی اے نے عدالتی احکام پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹس جمع کرائیں۔بینچ نے ایف آئی اے کی انکوائری افسر سے پوچھا کہ کیا ہتک آمیز پوسٹیں ہٹادی گئی ہیں۔

ایف آئی اے کی انکوائری افسر کومل انور نے بتایا کہ ایجنسی نے پی ٹی اے سےہتک آمیز مواد  ہٹانے کے لیے کہا تھا جبکہ  مہوش حیات نے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہےاور کبریٰ خان کا بیان ریکارڈ کرنا باقی ہے۔انہو ں نے مزید بتایا کہ  ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے پہلے ہی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ انکوائری آفیسر کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا گیا ہے  ۔

پی ٹی اے نے مہوش حیات کی درخواست پر جمع کرائی گئی  رپورٹ میں کہا ہے کہ عدالتی ہدایت ملنے پر اس مسئلے سے متعلق مجموعی طور پر 75 لنکس/یو آر ایلز کو بلاک کرنے کے لیے کارروائی کی جاچکی ہے ، تین لنکس کو بلاک کیا جاچکا ہے   جبکہ  پانچ لنکس کو صارفین نے ازخود ہٹادیا ہے اور اب وہ قابل رسائی نہیں ہیں  ، 18 لنکش میں کوئی قابل اعتراض مواد نہیں تھا۔

پی ٹی اے  نے عدالت سے استدعا کی  کہ درخواست گزار کو مشورہ دیا جائے کہ وہ مخصوص مواد کا جائزہ لے اور اس کی شناخت کرے جبکہ باقی 49 لنکس یا یو آر ایلزکو ہٹانے کیلیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ معاملہ آگے بڑھایا جارہا ہے ۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام نے زور دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے  8 اپریل 2022 کو پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 20 کے تحت پی ٹی اے کوحاصل ہتک عزت  کاہٹانے کا اختیار ختم کردیا تھا لہٰذا سندھ ہائی کورٹ سے درخواست  ہے کہ وہ یا تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہدایت جاری کرے یا درخواست گزار  کویہ معاملہ  براہ راست  سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ اٹھانے کیلیے کہا جائے۔

2 رکنی بینچ نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کی رپورٹس کو ریکارڈکا حصہ بناتے ہوئے درخواست گزاروں کے وکیل کو نقول فراہم کردیں جب کہ دونوں درخواستوں میں پی ٹی اے کی جانب سے وکیل نے پاور آف اٹارنی جمع کرایا۔ سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے کےتفتیشی افسرکو بھی آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کی ہدایت کی۔

متعلقہ تحاریر