عروج آفتاب کنسرٹس میں فلسطین کے پناہ گزین کیمپوں میں تیار ملبوسات پہنتی ہیں
عروج آفتاب اکتوبر 2021 سے فلسطینی ڈریس ڈیزائنر مجلی کے تیار ملبوسات پہن رہی ہیں جو غزہ، نابلس، رام اللہ اور الخلیل میں تیار کیے جاتے ہیں، ان کپڑوں کو پہننا حمایت کی ایک طاقتورعلامت ہے اور میری کارکردگی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے، گریمی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ
موسیقی کی دنیا کا معزز ترین گریمی ایوارڈ جیتنے والی پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب کی پرفارمنس چھوٹے رازوں سے بھری ہوئی ہے۔وہ جاز، فوک اور الیکٹرانکس کو روایتی جنوبی ایشیائی سروں اور اردو غزلوں کے امتزاج سے سامعین کو ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہیں۔
لیکن اسٹیج پرفارمنس کے دوران عروج آفتاب کا مقصد ایسے صوتی اثرات پیدا کرنا ہوتا ہےجوسماعتوں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
عروج آفتاب گریمی ایوارڈ جیتنے والی پہلی پاکستانی گلوکارہ بن گئیں
عروج آفتاب مسلسل دوسرے سال گریمی ایوارڈ کیلیے نامزد
ووگ میگزین کے مطابق بروکلین میں مقیم آفتاب اپنے سامعین کے بارے میں کہتی ہیں کہ”میں چاہتی ہوں کہ وہ اس لمحے کے لیے میری دنیا میں رہیں“۔ وہ کہتی ہیں کہ”لائیو پرفارمنس ایک موسیقار کازندگی سے بھرپور لمحہ ہوتا ہے اور مجھے اس کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے“۔
اسٹیج پرفارمنس کیلیے لباس کے انتخاب کی بات آتی ہے تو وہ چاہتی ہیں کہ جہاں بھی پرفارم کریں ان کا لباس جوش بھڑکائے چنانچہ عروج آفتاب نے 2 جون کو لندن کے باربیکن ہال میں منعقدہ اپنی پرفارمنس کیلیے ایک ایسے ڈیزائنر کا انتخاب کیا جو ان کے لباس میں ان کی موسیقی کی ترجمانی کرسکے۔
عروج آفتاب نے حالیہ پرفارمنس کیلیے فلسطینی فیشن ڈیزائنر یاسمین مجلی کا انتخاب کیا جو”نول کلیکشن“کی بانی اور تخلیقی ہدایت کار ہیں ، نول کلیکشن فلسطینی علاقوں میں ملبوسات تیار کرنے والا انٹرسیکشنل فیشن ہاؤس ہے۔
عروج آفتاب کو اکتوبر 2021 میں ان کے منیجر نے پہلی مربتہ نول کاایک کوٹ تحفے میں دیا تھا۔ عروج اور ان کے منیجر مجلی کے ابتدائی دنوں سے ہی ان کے مداح ہیں۔عروج جیکٹ کے پچھلے حصے پر کاڑھی گئی فلسطینی بچوں کی نظم سے متاثر ہوئی اور تحفے میں ملنے والے کوٹ میں جذبات کےرنگوں کو پسند کرتی تھیں۔
عروج آفتاب میں دسمبر 2021 میں اپنے پہلے این پی آر ٹنی ڈیسک کنسرٹ میں یہی کوٹ پہنا تھا ۔ کئی دوستوں نے مجلی کو یہ وڈیو ارسال کی ، جس کےبعد جلد ہی دونوں نےعروج آفتاب کے رواں سال کے عالمی دورے کیلیے ایک ٹو پیس سلک پرفارمنس سوٹ کیلیے منصوبہ بندی شروع کردی جو کہ عروج آفتاب کے پاکستانی ورثے کی علامتوں کو مجلی کی فلسطینی جڑوں کے ساتھ جوڑ دے گا۔
مجلی کہتی ہیں کہ” جب میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا کہ میں عروج کے لیے کیا بنانا چاہتی ہوں، تو میں اس طرف متوجہ ہوئی کہ وہ کتنی آسانی سے مضبوط اور طاقتور شکل کو اپناتی ہے۔ وہ بڑے کندھوں کے ساتھ بلیزر اور کیپ پہنتی ہے اور اپنے جمالیاتی انداز میں قیادت کرتی ہے، میں باربیکن اور اس کے دورے کے اس حصے میں اس کی تقلید کرنا چاہتی تھی اور اسے اسٹیج پر ایک طاقتور موجودگی کا احساس دینا چاہتی ہے‘‘۔مجلّی نے مارچ 2021 میں ’نول ‘ کی بنیاد رکھی جس کا عربی مطلب کھڈی ہے۔
باربیکن میں منعقدہ پرفارمنس کیلیے مجلی نے عروج آفتاب کا جو لباس تیار کروایا تھا اسے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ سے لندن پہنچنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مجلّی کی برانڈ کے تمام ملبوسات غزہ سمیت مقبوضہ فلسطین کے مختلف پناہ گزین کیمپوں میں تیار کیے جاتے ہیں ۔ عروج آفتاب کی باربیکن میں پرفارمنس کیلیے ان کالباس نابلس کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم تین بھائیوں خالد،امین اور حمدی نے تیار کیا ہے۔
مجلّی کہتی ہیں کہ”سوٹ کی بات کی جائے تو میں نے کہیں بھی ایسا تفصیلی اور بہترین کام نہیں دیکھا ، ہمارے تمام سوٹ اور کوٹ عسکر یت پسندوں کے پناہ گزین کیمپ میں بنائے گئے ہیں۔ ہمارے کڑھائی والے نابلس سے باہر ایک گاؤں میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ہماری تمام ٹی شرٹس اور سویٹ شرٹس بیت اللحم میں بنتی ہیں اور ہمارے پاس جولاہے ہیں جو غزہ میں کپڑا اور الخلیل میں بیگز بناتے ہیں جبکہ رام اللہ میں اضافی درز ی بھی موجود ہیں۔
درزیوں،جولاہوں اور کاریگروں کے درمیان مصنوعات کی نقل و حمل کی آزادی نہ ہونے کےباعث مجلی ٹیکسی ڈرائیوروں کونول کی مصنوعات کو ایک سے دوسرے علاقے تک پہنچانے کے لیے اضافی فیس ادا کرتی ہیں۔
جب ٹیکسی ڈرائیور دستیاب نہیں ہوتے تو مجلّی خود گاڑی چلاکر گھنٹوں اپنے کپڑوں کی ترسیل کا کام کرتی ہیں اورکبھی کبھی پورا پورا دن لگاتی ہیں ،اس کے باوجود وہ کبھی بھی غزہ سے باہر کام کرنے والے اپنے جولاہوں سے نہیں مل سکی اور جب اپنی مصنوعات فلسطین سے باہر بھیجنے کا وقت آتا ہے تو مجلّی کو اپنے آبائی شہر رام اللہ میں ہی ایسا کر نا پڑتاہے۔
مجلّی کہتی ہیں”شپنگ ہمیشہ ایک ڈراؤنا خواب ہوتا ہے،ہماری مصنوعات کو اکثر اسرائیلی حکام حراست میں لے لیتے ہیں اور ایک وقت میں کئی دن یا ہفتوں تک چوکیوں میں روکے رہتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے غیر متوقع طور پر سرحدی بندش کے پیش نظر میں اپنے صارفین کو اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ ان کی مصنوعات کب پہنچیں گی“۔
عروج آفتاب کے لباس کے لیے مجلّی کی والدہ نے رام اللہ سے منتخب شدہ کپڑے کو پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر تینوں بھائی کے پاس لیکر پہنچیں ۔ مجلّی پہلے ہی لندن میں تھیں اور عروج کے لباس پر خود ہی بلاک پرنٹنگ اور کڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن عروج کے کنسرٹ سے ایک دن پہلے تک لباس لندن نہیں پہنچا تھا۔
مجلّی کو معلوم ہوا کہ تل ابیب پوسٹ آفس نے عروج آفتاب کےلیے تیار کردہ لباس کو اسکے استعمال کی وجوہات نہ بتانے کی وجہ سے بھیجنے سے روک دیاہے۔ باربیکن میں آفتاب کی پرفارمنس سے ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا تھا کہ مجلّی نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر اردن اور پھر سعودی عرب کے ذریعے آخر کارپیکیج کو لندن پہنچانے کا انتظام کیا ۔
باربیکن ہال میں مجلّی کا ڈیزائن کردہ لباس پہنناعروج آفتاب کے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں لوگوں کے تیار کردہ لباس پہننے پر واقعی فخر ہے۔ اکثر اوقات، واقعی اتنی مایوسی ہوتی ہے اور آپ صرف اس الجھن میں رہتے ہیں کہ آپ ایساکیا کرسکتے ہیں جو بامقصد ہو“۔عروج آفتاب کہتی ہیںکہ”ان کپڑوں کو پہننا حمایت کی ایک طاقتورعلامت ہے اور میری کارکردگی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے“۔