شعراء 2 برسی 1 دن، شاعری سدابہار

منیر نیازی نے شاعری میں پراسراریت کے رنگ بکھیرے تو پروین شاکر نے اپنے اشعار میں صنفِ نازک کی الجھنوں کو بیان کیا۔

ماہ دسمبر دنیا کی اہم شخصیات کو چھین کر  لے گیا۔ پاکستان کے 2 چوٹی کے شعراء بھی اسی ماہ جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ منیر نیازی اور پروین شاکر کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

منیر نیازی اور پروین شاکر اپنے منفرد انداز بیاں کے باعث آج بھی اہل ذوق کے دلوں میں زندہ ہیں۔ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 26 برس گزر گئے ہیں۔ جبکہ منیز نیازی کی آج 14ویں برسی منائی جارہی ہے۔

منیر نیازی کا اچھوتا انداز شاعری

منیر نیازی کی برسی پر ان کے چاہنے والے ان کی جنگل میں قوس قزح کے رنگ بکھیرنے والی شاعری کو یاد کرتے ہیں۔ منیر صاحب کی شاعری کی فضاء اس قدر خوبصورت، پراسرار اور خوابناک ہے کہ اردو شاعری میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دیئے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں
ایک مقرر حد سے آگے
سوچ نہ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے
سپنے کی بھی حد تھی آخر
سپنا آگے جاتا کیسے

منیر نیازی کے اردو شاعری کے 13، پنجابی کے 3 اور انگریزی کے 2 مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ منیرؔ نیازی اپنے دور کے عظیم شاعر تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ کہ وہ اپنی بھولنے کی عادت سے پریشان تھے۔ اسی عادت کو انہوں نے ایک نظم میں سمو دیا۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

پروین شاکر کا مخصوص انداز شاعری

اردو شاعری کو پروین شاکر نے ایک اچھوتا اور دلچسپ لہجہ دیا۔ انہوں نے معاشرتی بیڑیوں اور صنفِ نازک کی الجھنوں کو واضح طریقے سے شاعری میں بیان کیا۔

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

پروین شاکر نے اپنی شاعری میں عشق کی خاردار راہوں کا ذکر بھی بڑے منفرد انداز میں کیا۔

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

یہ بھی پڑھیے

رحیم شاہ کی مداحوں سے والد کے لیے دعا کی اپیل

پروین شاکر کی شاعری میں اداسی اور رسوائی کا پہلو بھی جابجا نمایاں رہا۔

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی

پروین شاکر نے اپنی زندگی میں منیر نیازی صاحب کا ایک انٹرویو لیا تھا۔ جس میں دونوں عظیم شعراء کی گفتگو مداحوں کے لیے اب ایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔

متعلقہ تحاریر