ادارہ شماریات کی فاش غلطی نومبر میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ بنی

ادارہ شماریات نے پٹرولیم درآمدات 1.8ملین ٹن کے بجائے 2.8ملین ٹن ظاہر کیں،ویکسین  کو بھی قرضوں یاامداد میں شمار کرنے کے بجائے درآمدات کی مد میں ڈال دیا

ادارہ شماریات کی فاش غلطی نومبر میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ بنی۔ ادارہ شماریات نے پٹرولیم درآمدات 1.8ملین ٹن کے بجائے 2.8ملین ٹن ظاہر کیں،ویکسین  کو بھی قرضوں یاامداد میں شمار کرنے کے بجائے درآمدات کی مد میں ڈال دیا۔

انگریزی روزنامے بزنس ریکارڈر کی تحقیق کے مطابق  نومبر میں 1.9ا رب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پانچ ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ارب ڈالر تک جاپہنچا

حکومت نے قرضے لینے کا اپنا ہی بنایا ہوا ریکارڈ توڑ ڈالا

ادارہ شماریات نے 5ارب ڈالر کے تجارتی خسارے  کی بنیاد پر لوگ توقع کررہے تھے کہ  کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ  تقریباً 3 ارب ڈالر ہوگا لیکن اسٹیٹ بینک کا مال تجارتی خسارہ 3.7 ارب  ڈالر رہا۔مالی سال 2022 کے 5 ماہ کیلیے ادارہ شماریات کے 20.6ارب ڈالر اور اسٹیٹ بینک کے 17.6 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا فرق 3ارب ڈالر ہے  اور یہ فرق بنیادی طور پر جولائی تا نومبر  3.1ارب ڈالر کی درآمدات سے آتا ہے۔

 ادارہ شماریات اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار  میں فرق آنا معمول کی بات ہے کیونکہ جب بھی درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے  تو دونوں اداروں کے اعداد وشمار میں فرق آجاتا ہے جوکہ آنے والے مہینوں میں ادارہ شماریات کے  رپورٹ کردہ خسارے میں کمی کے ساتھ معمول پر آجا تا ہے تاہم  ایسا لگتا ہے کہ ادارہ شماریات نے پٹرولیم کی درآمدات کی رپورٹنگ میں غلطی کی ہے جس سے فرق جزوی طور پر بڑھ گیا ہے۔

تجزیہ کار اور معاشی ماہرین ادارہ شماریات کے 7.9 ارب  ڈالر کی  درآمدات   کے اعداد وشمار دیکھ کر حیران رہ گئے اور  اسے ہضم کرنا مشکل تھا۔نتیجتاً روپے کی قدرگری اور اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہوئی ۔ تاہم سمجھدار تجزیہ کار ادارہ شماریات کے تفصیلی اعداد و شمار میں  یہ دیکھ کر حیران کر دیا کہ پاکستان نے نومبر میں 2.8 ملین ٹن پٹرولیم مصنوعات اور خام تیل درآمد کیا جو کہ ممکن نہیں ہے۔

محکمہ شماریات کو ڈیٹا فراہم کرنے والی آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل(OCAC) کا ڈیٹا نومبر میں  1.8 ملین ٹن کی آئل امپورٹ کو ظاہر کرتا ہے جبکہ  ملک کی سالانہ درآمدات  پرنظر ڈالی جائے تو  بھی اوسی اے سی کے اعداد وشمار  درست معلوم ہوتے ہیں جو 2020 میں 15ملین ٹن اور  2019 میں 18.5 ملین ٹن تھی۔اب سوال یہ ہے کہ ادارہ شماریات   نے درآمدات زیادہ کیوں ظاہر کیں جس کے نتیجے میں درآمدی بل میں 50کروڑ ڈالر کا غیرواضح فرق آیا۔وفاقی حکومت کو مارکیٹ کو ا س سوال کا جواب دینا ہوگا۔

ویکسین کی درآمدوہ دوسرا عنصر ہے  جس نے مارکیٹوں کوالجھا رکھا ہے ۔ادارہ شماریات نے ویکسینز کو زرعی ادویات اور  کیمیکل گروپ  کی فہرست میں  شامل  کررکھا ہے۔ادارہ  شماریات کے اعدادوشمار میں اس مد درآمدات 68کروڑ 80لاکھ ڈالر رہیں جو مالی سال 2022 کے 5 ماہ  کیلیے2.1ارب ڈالر بنتی ہیں  جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق اس مد میں صر ف7کروڑ 50لاکھ  ڈالر کی درآمدات ہوئی ہیں جوکہ مالی سال 2022 کے 5ماہ کیلیے33کروڑ  ڈالر بنتی ہے۔مالی سال 2022 کے 5ماہ کیلیے یہ فرق 1.8ارب ڈالر  بنتا ہے جسے  اسٹیٹ بینک  نے شاید2.4ارب ڈالر کی  دیگر درآمدات    میں شامل کررکھا ہے جوکہ پچھلے سال 79کروڑ 20لاکھ ڈالر رہی تھیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ بہر حال  کرنٹ اکاؤنٹ  جولائی سے نومبر تک  7.1ارب ڈالر،جی ڈی پی کے سالانہ ڈیڑھ فیصد خسارے پر کھڑا رہا جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ 1.9ارب ڈالر سرپلس تھا۔ مالی سال 2021 کے 5ماہ میں درآمدات 29.9ارب ڈالر  جبکہ نومبر 2021 میں 6.4ارب ڈالر تھیں ۔

متعلقہ تحاریر