وفاقی کابینہ کی توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کی منظوری

نئی پالیسی کے تحت تحفہ حاصل کرنے والی شخصیت اصل قیمت ادا کر کے تحفہ حاصل کر سکے گی۔ رقم بیت المال میں جمع کرائی جائے گی۔

وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ سے متعلق معلومات اور ریکارڈنگ عوام کے سامنے لانے کی منظوری دے دی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں توشہ خانہ سے متعلق نظر ثانی شدہ پالیسی کی منظوری دے دی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نئی پالیسی کو کلاسیفائیڈ نہیں رکھا جائے گا اور توشہ خانے سے متعلق تمام تر معلومات اور تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ نے اس کی باقاعدہ منظوری دے دی۔

یہ بھی پڑھیے

نگراں وزیراعلیٰ کی تعیناتی کے بعد پنجاب بیوروکریسی میں بڑے پیمانے تبادلے

ریاست پاکستان کیخلاف مسلح کارروائی کھلی بغاوت اور حرام ہے، مفتی تقی عثمانی

نئی پالیسی کے تحت تحفہ حاصل کرنے والی شخصیت اصل قیمت ادا کر کے تحفہ حاصل کر سکے گی۔

اجلاس میں وزیر توانائی خرم دستگیر نے بجلی بریک ڈاؤن پر بریفنگ بھی دی۔ بجلی بریک ڈاؤن پر وفاقی کابینہ نے سخت اظہار برہمی کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی مشاورت ہوئی۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ برس توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر فراہم کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے توشہ خانہ کا 10 سال کا ریکارڈ جب کہ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانے کی تفصیلات فراہم کرنے کے احکامات دیے تھے ، اعلیٰ عدالتوں کے احکامات میں 1947 سے ریاستی حکام کی جانب سے حاصل کردہ توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔

گزشتہ برس جون میں وزیراعظم شہباز شریف نے ریاستی تحائف سے متعلق مزید شفاف پالیسی بنانے کے لیے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ہدایت کی تھی کہ توشہ خانہ (مینجمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2022 کا مسودہ تیار کرکے بین الوزارتی کمیٹی کی رپورٹ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ بل کے ساتھ پیش کی جائے۔

کمیٹی نے اپنی حتمی سفارشات میں کہا کہ ’گزشتہ 20 برسوں کے توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات کو فوری طور پر ڈی کلاسیفائی کر کے کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے گا، ہر 3 ماہ بعد اس معلومات کو اپ ڈیٹ اور اپ لوڈ کیا جاتا رہے گا۔

کمیٹی نے مزید تجویز دی کہ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد ان تحائف کو سرکاری عمارتوں میں آویزاں یا خیراتی اداروں کو عطیہ کر دیا جائے گا یا پھر مارکیٹ ویلیو کے حساب سے تحفے کی مقررہ قیمت کے مطابق انہیں فروخت کردیا جائے گا۔

ان تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بیت المال یا کسی دوسرے خیراتی ادارے میں جمع کرائی جائے گی۔

کمیٹی کے مطابق تحائف کو وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم سرکاری عمارتوں میں آویزاں کیا جا سکتا ہے۔

کمیٹی نے وزارت قانون سے بھی کہا تھا کہ وہ معلومات تک رسائی کے حق کے ایکٹ 2017 کا جائزہ لے اور حکومت اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے نمٹائے جانے والے معاملات کی حساس نوعیت کی روشنی میں اس میں موجود ممکنہ خامیوں کو دور کرنے کے لیے ضرورت کے مطابق ترامیم تجویز کرے۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

توشہ خانہ یا اسٹیٹ ریپازیٹری کا نام تو آپ نے اس سارے معاملے کے دوران بار بار سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔

کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔

یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔

ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔

متعلقہ تحاریر