پی اے ای ایم کی زیراہتمام "طب یونانی: پس منظروپیش منظر” پر سمپوزیم
سمپوزیم کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے کہا کہ طب یونانی ایک زندہ و تابندہ علم و حکمت ہے، جو اپنی اہمیت و افادیت صدیوں سے منوارہا ہے۔
ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد کی زیر صدارت، پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن کے زیر اہتمام مورخہ 5 مارچ 2023 کو سر شاہ نواز میموریل لائبریری لاڑکانہ میں "طب یونانی: پس منظروپیش منظر” کے موضوع پر خصوصی علمی و تعلیمی سمپوزیم منعقد کیا گیا۔
سمپوزیم میں پرو وائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی، لاڑکانہ پروفیسر ڈاکٹر اظہر علی شاہ بطور مہمان خصوصی، جبکہ شاہ نواز لائبریری کے اسٹنٹ ڈائریکٹر شمس الدین کلہوڑو اور ڈائریکٹر ہیلتھ رستم علی بھٹو، حکومت سندھ گیسٹ آف آنر کے طور پر شریک ہوئے۔
دیگر معزز شرکا میں ہمدرد یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان اور پروفیسر ڈاکٹر احسانہ ڈار اور حکیم غلام صدیق بروڑو سمیت لاڑکانہ شہر کے اطبا کرام و طبیب شامل تھے۔
سمپوزیم کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے کہا کہ طب یونانی ایک زندہ و تابندہ علم و حکمت ہے، جو اپنی اہمیت و افادیت صدیوں سے منوارہا ہے۔ ادارہ ہمدرد اور شہید حکیم محمد سعید اس علم کی ترقی کے لیے کوشاں رہے اور یہاں کی حکومتوں کو اس کی اہمیت بتاتے رہے۔ پاکستان طب یونانی کے حوالے سے خود کفیل ہے۔
محترمہ سعدیہ راشد کا کہنا تھا کہ خدارا یہ غلطی پھر نہ کی جائے کہ پڑوسی ملک کے متبادل طریق علاج کو ملک میں درآمد کرلیں اور وہ جڑی بوٹیوں درآمد کریں جن سے ہمارا صوبہ سندھ پہلے ہی مالا مال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل وطن اس سنگین صورتحال کا جائزہ لیں اور مہنگے علاج سے بچنے کے لیے وزارت صحت کے اعلیٰ عہدیدار حقیقت پسندانہ فیصلے کریں۔ ورنہ دیگر شعبوں کی طرح ہم اس شعبہ میں بھی دوسروں کے محتاج ہوجائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر اظہر علی شاہ نے کہا کہ طب یونانی کا آغاز صوبہ سندھ سے ہوا۔ طب مشرق ہمارا عظیم ورثہ ہے جو ہمارے اسلاف نے ہمیں بطور تہذیب عطا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بانی ہمدرد شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے اس دھرتی کو مان دیا۔ علم و شعور سے سماج کو منور کرنا نہ صرف قومی خدمت ہے بلکہ مذہبی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیمار قوم ترقی نہیں کرسکتی، لہذا متبادل طبی نظام کی یقینا ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ شہید حکیم محمد سعید کے نام پر کوئی طبی ادارہ لاڑکانہ میں بھی قائم ہونا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان نے کہا کہ طب یونانی صدیوں سے آزمودہ اور ارزاں طریق علاج ہے تاہم دیگر علوم کی طرح عصر حاضر کے تناظر میں طب یونانی میں تحقیق اور اطبا کرام کو طب میں جدت سے متعارف کروانا ضروری ہے۔ کوویڈ 19 کے بعد دنیا بھر میں متبادل طریق علاج پر توجہ دی جارہی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ہربل ادویہ سازی کی صنعت کا حجم اگلے سالوں میں 200 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ گنتی کے چند ممالک اس صنعت کی ترقی سے مستفید ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی ہمدرد شہید حکیم محمد سعید کی بدولت پاکستان ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں متبادل ادویہ سازی بطور صنعت موجود ہے جو عالمی معیارات کے عین مطابق ہے۔ پاکستان اس حوالے سے بھی خوش نصیب ہے کہ یہاں نادر اقسام کی زمین و فطری ماحول موجود ہیں جو جڑی بوٹیوں کی کاشت کے لیے موزوں ترین ہیں۔ پاکستان ہر لحاظ سے اس پوزیشن میں ہے کہ طب یونانی کا عالمی راہنما بن کر ابھرے۔ تاہم اس کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ اسی لیے عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایسے سمپوزیم منعقد کیے جارہے ہیں۔