سموگ اور کرونا کا انسانیت پر مشترکہ وار

لاہور میں امریکی سفارتخانے میں نصب فضاء کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق نومبر دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں لاہور کی ایئر کوالٹی انڈیکس غیرتسلی بخش رہے گی۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ڈیڑھ کروڑ نفوس سے زیادہ پر مشتمل آبادی سموگ اور کرونا کے خوف زدہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ابھی کرونا کا خطرہ مکمل طور پر ٹلا نا تھا کہ سموگ ہونا شروع ہوگئی جس کے باعث کرونا کے ایک حملے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

سموگ کی وجہ سے پھیلنے والے دیگر امراض اِس کے علاوہ ہیں۔

اسموگ کی وجہ سے ماضی میں بھی مشکلات پیش آتی رہی ہیں جن کے تحت تعلیمی ادارے بند کرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں کو بھی محدود کیا گیا تھا۔

شہر لاہور کو اس سال سموگ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی وبا "کرونا” کا بھی سامنا ہے۔

پوری دنیا کی طرح شہر لاہور کو بھی فضائی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سامنا ہے۔

طبعی ماہرین کے مطابق عام طور پر اسموگ کے باعث آنکھوں، ناک اور حلق میں جلن کی شکایت ہوتی ہے اور یہ پہلے سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے بھی انتہائی مضر ہوتی ہے۔

سموگ انسان کی قوت مدافعت کو تیزی سے اور غیر محسوس طور پر کم کر دیتی ہے۔

قوت مدافعت کم ہونے پر کورونا باآسانی انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

گذشتہ برس اسموگ کیسا رہا؟

گذشتہ سال نومبر کے تیسرے ہفتے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ایک غیرمعمولی بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا صوبائی دارلحکومت "لاہور” اسموگ کی وجہ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔

جس کے باعث لاہور کے ہر شہری کی صحت کو اسموگ یا گرد آلود زہریلی دھند سے خطرہ لاحق ہے۔

اسموگ سے کون لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟

اسموگ تین طرح کے افراد کیلئے زیادہ خطرناک ہیں۔ زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں میں بچے، بزرگ اور حاملہ خواتین شامل ہیں۔

ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کا مطلب کیا ہے؟

یورپین ٹیکنالوجی سے بنائے گئے ایئر مانیٹرنگ سسٹم ایئر کوالٹی انڈیکس کا تعین فضاء میں مختلف گیسز اور پی ایم 2.5 کے تناسب کو جانچ کرکرتا ہے جو لاہور سمیت پاکستان کے مختلف پرائیویٹ سیکٹرز میں لگائے گے ہیں۔

ایک خاص حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں یہ گیسز ہوا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔

لاہور میں گذشتہ کئی برسوں سے سردیوں کے موسم میں اسموگ اور فضائی آلودگی سنگین مسئلہ بن گئے ہیں۔

جب اے کیو آئی انڈیکس 0 اور 50 کے درمیان میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہوا کی کوالٹی اچھی ہے۔

اے کیو آئی کا 51 سے 100 کے درمیان ہونے کا مطلب ہوا کی کوالٹی درمیانے درجے کی ہے۔

لیکن 101 سے 150 تک کی ایئر کوالٹی سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا اور حساس طبیعت افراد کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

اگر 151 سے 200 کے درمیان ہو تو وہ غیر صحت بخش ہوجاتی ہے جس سے عام لوگوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

اگر اے کیو آئی 201 سے 300 کے درمیان ہوجائے تو فوراً صحت کی ایمرجنسی نافذ کر دینی چاہیے۔

اگر اے کیو آئی 301 سے 500 کے بیچ ہو تو عام لوگوں کو صحت کے حوالے سے شدید نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اسموگ اور کورونا کے تناظر میں 2020ء کی صورتحال

رواں سال نومبر کے مہینے میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ اسموگ بھی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جبکہ کرونا وباء نے ایک بار پھر اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں محکمہ موسمیات اور محکمہ ماحولیات کی جانب سے شہر کی فضاء کو مضر صحت قراردیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں لاہور آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہے جس کا مجموعی طور پر ایئر کوالٹی انڈیکس 229 تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

شہر لاہور کے صنعتی علاقے میں اے کیو آئی خطرناک حد سے تجاوز کر چکا ہے۔

 610 اے کیو آئی کے ساتھ قائد اعظم انڈسٹریل سٹیٹ آلودہ ترین علاقہ بن گیا ہے۔

سُندر انڈسٹریل اسٹیٹ 437، گڑھی شاہو 383 جبکہ ایئرپورٹ کا 312 اے کیو آئی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اِس کے علاوہ اپر مال 244، ڈی ایچ اے 229 اور ڈیوس روڈ کا 225 اے کیو آئی ریکارڈ ہوا ہے۔ اسموگ سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال لازمی قرار دے دیا گیا ہے جبکہ کرونا سے بچاؤ کے لیے پہلے ہی ماسک لازمی قرار دیا گیا ہے۔

آئندہ چند ماہ میں اسموگ کی صورتحال کیا ہوگی؟

ملک بھر میں پھیلی ہوئی فضائی آلودگی (جسے ہم آج کل اسموگ کا نام دیتے ہیں) دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے فروری تک لاہور میں کوئی دن ایسا نہیں ہوگا جب شہر میں اسموگ نہ ہو۔

لاہور میں امریکی سفارتخانے میں نصب فضاء کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق نومبر دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں لاہور کی ایئر کوالٹی انڈیکس غیرتسلی بخش رہے گی۔

گذشتہ سال بھی ان مہینوں میں متعدد بار لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 580 تک پہنچ گیا تھا۔

اے کیو آئی کے مطابق 130 کی شرح حساس طبعیت کے مالک افراد کے لیے تاحال غیرصحتمندانہ ہے۔

اسموگ کیسے پھیلتی ہے؟

ماہرین کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے شمال میں پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ یہ سموگ کے لیے ایک دیوار کا کام کرتے ہیں۔

چاول کے منڈھ جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں معلق رہتا ہے اور ہوا اُسے پاکستان میں داخل کرا دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جس قدر یہ زیادہ ہوگا اتنا دور تک پاکستان کے اندر تک سفر کرے گا۔ اس طرح زیادہ شہر متاثر ہوں گے۔

اسموگ اور کرونا سے متعلق ماہرین کی رائے

طبی ماہرین کا موجودہ صورتحال پر کہنا ہے کہ کرونا اور اسموگ کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے غیرضروری طور پر باہر نہ نکلا جائے۔

باہر نکلنے کی صورت میں ماسک اور آنکھوں پر عینک کا استعمال کریں۔ اپنے ہاتھ اور منہ کو نیم گرم پانی سے صاف کریں۔ صحت مند غذا کا زیادہ استعمال کریں تاکہ آپ کی قوت مدافعت مضبوط رہے۔

آنکھوں کی ڈاکٹر عائشہ صدف کہتی ہیں کہ ”اس آنکھیں بھی اسموگ میں خراب ہوسکتی ہیں اور انہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اسموگ سے بچاؤکے لیے سن گلاسز کا استعمال کریں۔‘‘

اُن کی تجویز ہے کہ ادویات کی دکان سے مصنوعی آنسو ملتے ہیں۔ ان سے آنکھوں کو دھوئیں اور اگر آنکھوں میں چبھن ہو تو انہیں بالکل بھی نہ رگڑا جائے۔ ایسی حالت میں فوراً آنکھوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ڈاکٹر کامران چیمہ نے نیوز 360 سے گفتگو میں بتایا کہ ”دھویں سے پیدا ہونے والی  آلودگی کے باعث ماحول بدل رہا ہے، بیماریاں پھیل رہی ہیں اور موسموں میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی جارہی ہے۔‘‘

چند سال قبل عالمی ادارۂ صحت نے فضائی آلودگی کو دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا تھا۔

فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

اگر فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو اس کے اثرات پوری نسل کو بیماریوں کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کی رائے

ماہر ماحولیات سید اجمل رحیم کے مطابق ”روزانہ ہزاروں ٹن خطرناک گیسز انسانوں کے ساتھ ساتھ پودوں کی افزائش کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے خطرناک انڈسٹریل ٹیکنالوجی کو بدل دیا جبکہ پاکستان ابھی اس پرانی طرز کی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ اسموگ کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وباء ہے جو نومولود بچوں میں جسمانی معزوری کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ اسموگ کی وجہ سے پودوں میں آکسیجن کی پروڈکشن کم ہوجاتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کرہ ارض پر بسنے والے جاندار تو متاثر ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔

اسموگ پر حکومتی اقدامات

محکمہ ماحولیات کی جانب سے فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، اجزاء، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے  کیمیائی ذرات کی مقدار ناپنے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے نئے سسٹم لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مدد سے فون ایپ تیار کی جائے گی۔

محکمہ ماحولیات یورپین ٹیکنالوجی سے تیار کردہ نئے مانیٹرنگ سسٹم بھی خریدے گا جو لاہور کے مختلف مقامات پر نصب جائیں گے۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق آئن لائن ایپ سے شہری کو لاہور کی آلودگی سے متعلق درست معلومات بروقت مل سکیں گی۔

اسموگ پر حکومتی کارروائیاں

دوسری طرف پنجاب حکومت نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر کریک ڈاؤن کا عمل تیز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف اب تک 397 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

23 ہزار 230 گاڑیوں کا چالان جبکہ انتہائی مضر صحت دھواں چھوڑنے والی 2 ہزار 441 گاڑیوں کو بند کردیا گیا ہے۔

ان گاڑیوں کو اب تک ایک کڑور 19 لاکھ 46 ہزار 75 روپے کے جرمانے کیے گئے ہیں۔ وہیں دوسری طرف آلودگی پھیلنے والی 206 صنعتوں کو بند کردیا گیا ہے۔

پی ڈی ایم اے کی حکومت کو کرونا اور اسموگ پر سفارشات

 قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے نے پنجاب حکومت کو موجودہ صورتحال پر سفارشات بھیجی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اسموگ کا تناسب 300 سے تجاوز کرنے پر تعلیمی ادارے بند کر دیئے جائیں۔

پنجاب حکومت کے تمام ورکنگ گروپس برائے انسداد کورونا نے مارکیٹیں بازار وغیرہ شام 7 بجے بند کرنے، جبکہ شادی ہال 8 بجے بند کرنے کی سفارش کی ہے۔

پنجاب میں شجرکاری مہم کے تحت زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی بھی سفارش کی ہے جس کیلئے 54 کڑور روپے کے فنڈز بھی مانگ لیے ہیں۔

متعلقہ تحاریر