کیا 17 نومبر کو کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا تھا؟

اکیسویں صدی کی سب سے خطرناک وباء چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

اکیسویں صدی کی خطرناک ترین وباء کرونا کو ایک شاید سال مکمل ہوگیا ہے۔

دنیا میں ویسے تو کئی بیماریاں آئیں اور چلی گئیں لیکن کرونا کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اکیسویں صدی کی سب سے خطرناک وباء چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی۔

ووہان میں 17 نومبر 2020ء کو کرونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ وباء ووہان سے نکل کر صرف چین یا ایشیاء میں ہی نہیں پھیلی بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ووہان سے جنم لینے والی وباء پر قابو بھی سب سے پہلے ووہان میں ہی پایا گیا۔ ابتداء میں کہا جاتا رہا کہ کرونا وائرس جانورں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ وائرس کے پھیلنے کی وجہ چمگادڑیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا کا سردیوں میں طاقتور ہوجانا مفروضہ یا حقیقت؟

جب کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا تو چین نے 1000 بستروں پر مشتمل اسپتال تعمیر کیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ اسپتال محض 6 دن میں تعمیر کیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے کرونا کو 11 مارچ کو عالمی وباء قرار دیا تھا۔

چند روز قبل ادویات بنانے والی بین الاقوامی کمپنی نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ کمپنی کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ ویکسین 90 فیصد تک موثر ثابت ہوئی ہے۔ لیکن اس کی ٹیسٹنگ اب بھی جاری ہے۔

اس کے بعد روس اور امریکا نے بھی ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر یہ ویکسین کرونا کے خلاف مکمل طور پر موثر ثابت ہوجاتی ہیں تو ان کی دنیا بھر میں دستیابی یقینی بنانے میں ہی مزید ایک سال لگ جائے گا۔

پاکستان نے ویکسین کی پہلے سے ہی بکنگ کروانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ ویکسین کے لیے دگنی قیمت ادا کرے گا۔

تحقیق کیا کہتی ہے؟

کرونا وباء وائرس کے اس خاندان میں سے ہے جسے “اینویلپڈ وائرس” کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے وائرس ہوتے ہیں جو کسی چیز میں لپٹے ہوئے ہوں۔ اِس کا مطب ہے کہ ان پر ایک چکنی تہہ ہوتی ہے جسے لیپڈ بایلیئر کہتے ہیں اور جس پر نوکیلی کیلوں کی طرح کے پروٹین ہوتے ہیں جیسے کسی بادشا یا ملکہ کے تاج میں لگے ہوتے ہیں۔ لاطینی زبان میں تاج کو کورونا کہتے ہیں۔

اِس طرح کے وائرس پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق گرمی میں یہی چکنی تہہ ان کی کمزوری بن جاتی ہے۔ لیکن سردی میں یہی تہہ سخت ہو کر ربڑ جیسی ہوجاتی ہے۔ اِسی لیے سردی میں یہ تہہ اس وائرس کی دیر تک حفاظت کرتی ہے جبکہ گرمی میں یہ پگھل جاتی ہے۔ اِسی وجہ سے ایسی تہہ والے زیادہ تر وائرسوں پر موسم اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا سے متاثر اور انتقال کر جانے والی مشہور شخصیات

اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں بیماریوں پر تحقیق کے سینٹر سے منسلک کیٹ ٹیمپلیٹن نے بھی دس برس قبل ایک تحقیق کی تھی۔ تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ تین مختلف اقسام کے کرونا وائرس کا تعلق سردی کے موسم سے تھا۔

سردیوں میں کرونا سے کیسے بچا جائے؟

امریکا میں یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسن کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر 95 فیصد لوگ ماسک کا استعمال کریں تو اس وباء سے بچنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

کوویڈ 19
@TheEconomicTimes

صرف امریکا ہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ماسک بیماری کو حملہ آور ہونے سے روک سکتا ہے۔ جب وائرس جسم میں داخل ہونے لگتا ہے تو ماسک آڑے آجاتا ہے۔ ماسک بالکل اس طرح کا کردار ادا کرتا ہے جیسے کسی شخصیت کو بچانے کے لیے اس کا محافظ۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیفشل انٹیلیجنس چھینک سے کرونا کی تشخیص کرے گی

متعلقہ تحاریر