تھرپارکر: بچے کی پیدائش کے دوران زچہ کو متعدد صدمات سے گزرنا پڑ گیا

تھرپارکر کے چھاچرو اسپتال میں دوران زچگی بچے کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

تھرپارکر: بھیل برادری سے تعلق رکھنے والی ایک 32 سالہ ہندو خاتون کو گزشتہ ہفتے متعدد صدمات سے گزرنا پڑا ، جب سرکاری اسپتال میں ڈاکٹروں نے اپنی غفلت کی وجہ سے دوران زچگی بچے کا گلا کاٹ کر سر تن سے جدا کردیا۔

خاتون کا پہلا آپریشن چھاچھرو میں اور دوسرا حیدرآباد کے لیاقت یونیورسٹی اسپتال (LUH) میں ہوا۔

خاتون ملوکاں کی نارمل ڈیلیوری نہیں ہو رہی تھی ، بچی کی پیدائش کے لیے خاتون کو سرکاری اسپتال میں لایا گیا ، دوران زچگی بچے کا دھڑ ماں کے پیٹ سے پہلے نکلا جبکہ سر پھنس گیا ، جبکہ اس دوران اسپتال میں تجربہ کار  گائناکا لوجسٹ بھی ڈیوٹی پر موجود نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان کی ہونہار طالبہ کی امریکی جامعہ میں داخلے کیلیے چندہ مہم

پاکستان میں ذیابیطس کے مرض میں خوفناک حد تک اضافہ

ناتجربہ کار ڈاکٹر نے ماں کی جان بچانے کی خاطر بچے کا گلا کاٹ کر سر تن سے جدا کردیا ۔ تاہم سر خاتون کے پیٹ اندر ہی رہا گیا ، عملے میں نازک حالت میں خاتون کو ورثاء کے حوالے کردیا اور مٹھی کے اسپتال کے لیے ریفر کردیا۔

مٹھی اسپتال کے عملے نے یہ کہہ کر کیس لینے سے انکار کردیا ہے کہ ان کے پاس آپریشن کی سہولت نہیں ہے ، اور خاتون کو حیدرآباد سول اسپتال کے لیے ریفر کردیا گیا۔

حیدرآباد سول اسپتال کی سینئر ڈاکٹر ارم اور ڈاکٹر عظمیٰ تھیبو نے آپریشن کرکے پیٹ سے بچے کا سر نکالا اور ماں کی جان بچائی۔

اس خوفناک غلطی پر سندھ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جمن باہوتو کو دونوں کیسز کی الگ الگ انکوائری کا حکم دیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جمن باہوتو نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ، تین رکنی کمیٹی کے سربراہی ڈاکٹر زاہد محمود کریں گے۔ کمیٹی اس معاملے میں غفلت کی انکوائری کریں گے ، خاص طور پر چھاچھرو کے دیہی مرکز صحت (RHC) میں گائناکالوجسٹ اور خواتین عملے کی عدم موجودگی کی تحقیقات کرے گی۔

خاتون اس وقت لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو کے پروفیسر ڈاکٹر راحیل سکندر کی زیر نگرانی LUH کے گائنی یونٹ میں داخل ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر راحیل سکندر کا کہنا ہے کہ خاتون کی جان بچ گئی ہے ، دوران زچگی خاتون کی بچہ دانی پھٹ گئی تھی جس کی وجہ سے کیس پیچیدہ ہوگیا۔

پروفیسر ڈاکٹر راحیل سکندر کا مزید کہنا تھا کہ ’’بچے کے کولہوں اور ٹانگوں کی مکمل نشوونما تھی، لیکن بدقسمتی سے یہ مردہ بریچ بچہ تھا۔‘‘

سندھ کے ڈی جی ہیلتھ کی جانب سے ہفتہ کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ نارمل ڈیلیوری نہ ہونے کی وجہ سے بچے کا سر پھنس گیا تھا کیونکہ ڈیلیوری کرانے والا عملہ ناتجربہ کار تھا۔

اس سارے معاملے کی تحقیق کے لیے صوبائی سیکریٹری صحت کے حکم انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

ڈی جی ہیلتھ کا کہنا ہے کیس میں بدانتظامی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے ، کیس کو پہلے سول اسپتال مٹھی ریفر کیا گیا جہاں سے کیس کو حیدر آباد ریفر کردیا گیا، جس سے ماں کی جان کو خطرہ بڑھ گیا تھا۔

ڈی جی ہیلتھ کے مطابق ایک حکم نامے کے ذریعے مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو 24 گھنٹے میں انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔

ڈی جی ہیلتھ کا کہنا ہے ایسی مثالیں بہت کم ہوتی ہیں کہ مریض کو سنگین حالت میں اسپتال لایا گیا ہو۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ہم انکوائری کررہے ہیں کہ کیا چھاچھرو اسپتال میں بچے کا سر کاٹنا درست تھا یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ خاتون کو پہلے چھاچھرو کے ایک مشنری اسپتال لایا گیا تھا جہاں اس کا آپریشن کیا گیا اور پھر اسے مٹھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ریفر کر دیا، بعدازاں خاتون کو حیدرآباد سول اسپتال ریفر کردیا گیا۔

متعلقہ تحاریر