لاہور کے 60 سالہ بابا عبدالوحید نوجوانوں کے لیے مثال
لاہور میں عبدالوحید باڈی بلڈنگ میں بابا جی اور استاد جی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ڈھیروں شاگرد بھی تن سازی کرتے ہیں اور مقابلوں سے اپنا اور استاد جی کا نام روشن کرتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لاہور کے علاقے مناواں سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ عبدالوحید نے پنجابی کی مشہور کہاوت ہے ’دل ہونا چاہیدا جواں تے عمراں وچ کی رکھیا‘ کو سچ ثابت کیا ہے۔
60 سال کی عمر میں معمر تن ساز استاد عبدالوحید نے مسٹر پاکستان کا ماسٹرز ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور اب ان کا عزم ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنا ہے۔
لاہور میں عبدالوحید باڈی بلڈنگ میں بابا جی اور استاد جی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ڈھیروں شاگرد بھی تن سازی کرتے ہیں اور مقابلوں سے اپنا اور استاد جی کا نام روشن کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
لیونل میسی کی کرونا کی وباء کے دوران بار بی کیو پارٹی
جبکہ 60 سالہ تن ساز استاد عبدالوحید خود بھی کسی نوجوان تن ساز سے کم نہیں ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی گھنٹوں تربیت کرتے ہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ نوجوانوں سے زیادہ وزن اٹھاتے ہیں اور انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ آئیں میرا مقابلہ کریں۔
نیوز360 سے گفتگو میں بابا جی نے بتایا کہ ان کے والد پہلوان تھے اور ان کو دیکھ کر ان کو بھی اچھا تن ساز بننے کا شوق ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں جوانی سے تن ساز نہیں ہوں بلکہ میں نے 1994 میں ایک ہیلتھ کلب کھولا لیکن خود میں نے 40 برس کی عمر میں باقاعدہ تن سازی شروع کی جبکہ مقابلوں میں حصہ لینا 10 برس پہلے شروع کیا۔
خوراک کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں تن ساز عبدالوحید نے بتایا کہ باڈی بلڈنگ اور ورک آؤٹ کرنے کے لیے خوراک کا بہت اہم کردار ہوتا ہے خالص اور دیسی خوراکیں پھل سبزیاں اور خشک میوہ جات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’ سٹیرائیڈز استعمال نہیں کرنا چاہیے میرے نزدیک کوئی مفت ادویات یا سٹیرائیڈز دے تو مت لیں قدرتی طور پر خود کو مضبوط اور توانا کرنا چاہیے۔‘
استاد عبدالوحید نے ٹائٹل جتنے پر کتنی محنت کی؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے ماسٹرز کیٹگری میں مسٹر لاہور پھر پنجاب اور اب مسٹر پاکستان بنا ہوں۔ یہ سفر انتہائی مشکل دے سفر تھا اس مقام تک پہنچنے کے لیے 20 سال لگے، اس سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر میں ہمت نہ ہاری محنت لگن کے ساتھ اپنے مشن میں چلتا رہا۔‘
اپنے ماضی کے بارے بتاتے ہوئے عبدالوحید نے کہا کہ ’پنجاب کے ٹائٹل کے مقابلے کی دفعہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی جس سے میں دل برداشتہ ہوگیا اس سفر میں دوستوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے محنت جاری رکھی، اس سفر میں چیمپیئن سلمان احمد سمیت میری فیملی میں میرا بہت ساتھ دیا۔‘
ایک سوال جے جواب نے انہوں نے بتایا کہ وہ ہر روز ڈیڑھ گھنٹے تک سخت ورزش کرتے ہیں اور پھر کلب میں بھی ٹریننگ کرواتے ہیں۔
ان کا کلب کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’میں نے اپنی فٹنس کے لیے کلب نہیں بنایا بلکہ نوجوانوں کے لیے بنایا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوان کھیل کی طرف آئیں، نشے کی لت میں نا پڑیں، کسی کے پاس پیسے نہ بھی ہوں تو وہ محنت کریں میں ساتھ دوں گا کسی کے پاس پیسے نہ بھی ہوں تو میں اس کے پیسے اپنی جیب سے دوں گا۔‘
مسٹر پاکستان استاد عبدالوحید آئندہ ایشیا کی سطح پر پاکستان کی جانب سے مقابلہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ حکومت ان کی سرپرستی کرے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا نام روشن کر سکیں۔