کیا اراکین کو پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان پر قانونی استثنیٰ حاصل ہے؟

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سردار ایاز صادق کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سردار ایاز صادق کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا۔ جبکہ تمام ارکان پارلیمنٹ کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔

حکومت نے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے خلاف کمر کس لی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ایاز صادق کے بیانات کو "معافی سے بالاتر” قرار دے دیا۔ انہوں نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔

سردار ایاز صادق کے بیان کو بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا۔ بھارت نے ابھی نندن کی رہائی پر پاکستان کے خیر سگالی کے پیغام کو بزدلی کی کارروائی قرار دیا۔

اس طرح کے بیانات سمبلی میں صرف حزبِ اختلاف کی جانب سے ہی سامنے نہیں آئے۔ بلکہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پلوامہ واقعے کو اپنی حکومت کی ایک ’’ فتح ‘‘ قرار دیا تھا جس نے یہ تاثر دیا تھا کہ پاکستان واقعے میں ملوث ہے۔

بعد ازاں دونوں اراکین اسمبلی نے اجلاس کے دوران دیئے گئے اپنے بیانات پر معافی مانگ یا پھر وضاحت کی۔ کیا اراکین اسمبلی کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ حساس معاملات پر اس طرح کے بیانات نہ دیں؟

اس حوالے سے قانونی ماہر شہاب استو نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "اراکین کو اسمبلی میں آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے”۔

انہوں نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا جس میں اراکین پارلیمنٹ کے اختیارات، استثنیٰ اور استحقاق کی وضاحت کی گئی ہے۔

            انہوں نے کہا کہ "اگر قانون کو قانون بنانے والوں کو شکوک و شبہات میں ڈال دیا گیا تو ملک کا کیا بنے گا؟”۔

متعلقہ تحاریر