فوزیہ ناصر احمد، باہمت صحافی ، ماہر برگر کوئین

کراچی کی ایک باہمت خاتون صحافی نے میڈیا کی حالیہ صورتحال سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کرکچھ الگ کرنے کا سوچا

پاکستان میں میڈیا کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان کی عدم توجہی اور میڈیا مالکان کی بے حسی کی وجہ سے پہلے ہی صحافی مالی بحران اور پریشانیوں کا شکار تھے کہ بچی کھچی کسر کرونا نے پوری کردی ہے۔

اس وقت ملک بھر میں کئی صحافی  یا تو ملازمتوں سے برطرف کردیے گئے ہیں یا پھر ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔

جہاں صحافیوں نے دیر سےآنے والی تنخواہ یا کم ہونے والی تنخواہ پر گزارا کرنے پر اکتفا کیا ہے وہیں ایک باہمت خاتون صحافی نے اِس صورتحال سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کرکچھ الگ کرنے کا سوچا۔

فوزیہ ناصر احمد دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں۔

فوزیہ کا شمار پاکستان کے اُن چند صحافیوں میں ہوتا ہے جو انگریزی زبان میں لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح کرنے کی بھی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔

میڈیا کی صنعت کے حالات دیکھتے ہوئے اُنہوں نے برگر مینیا شروع کرنے کا سوچا تھا اور اپنے آپ کو ایک اور میدان میں ماہر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

برگر مینیا کا خیال فوزیہ ناصر احمد کو 5 سال قبل کراچی ایٹ فیسٹیول کے موقع پر اپنے نایاب برگرز سے کراچی والوں کی تواضع کرتے ہوئے آیا تھا۔

اُس وقت اُنہوں نے دوستوں کو اپنی مہارت اور ہاتھ کے ذائقے سے مرعوب بھی کیا تھا۔

دیگر صحافیوں کی طرح میڈیا کے حالات نے انہیں ناامید تو کیا لیکن انہوں نے اس سے مایوس ہونے کے بجائے سیکھنے کو ترجیح دی۔

جب کرونا کی وجہ سے اُن کو کچھ وقت ملا تو انہوں نے برگر مینیا کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔

 فی الحال تو وہ صرف شام کے وقت آفس سے واپسی پر لوگوں کے آرڈز لیتی ہیں اور انہیں فرسٹ کلاس برگر بناکر ڈیلیور کرواتی ہیں۔

  کراچی میں لوگوں کو اچھے کھانوں کے ذائقے کی پہچان ہوتی ہےاسی لئے فوزیہ کو یقین  ہے کہ آج نہیں تو کل برگر مینیا کا مینیا سر چڑھ کر بولےگا۔

 نیوز 360 کو انٹر ویو دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال برگر مینیا ابھی تجرباتی دور سےگزر رہا ہے۔

پاکستان میں کاروبار کرنا ایک تو ویسے بھی آسان نہیں پھر اُسےنوکری کے ساتھ جاری رکھنا اور بھی مشکل ہے۔

اِسی لئے ابھی فوزیہ نے صرف چکن اور بیف برگرز سے  اپنا کاروبار شروع کیا ہے تاکہ لوگوں کے مزاج کو جانچا جاسکے۔

اُن کا برگر کھا کر اتنا ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ برگر مینیا لمبی ریس کا گھوڑا ہے اور اپنے مختصر مینیو کے ساتھ بھی بہت جلد لوگوں کے پیٹ میں گھر کر سکتا ہے۔

فوزیہ ناصراحمد کا کہنا تھا کہ کراچی میں برگرز تو بہت ملتے ہیں لیکن جتنا خالص برگر وہ تیار کرتی ہیں شاید ہی کوئی دوسرا کرتا ہوگا۔

انگریزی اخبا ر کی ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے فوزیہ ناصر احمد کے برگر مینیا کے مینیو میں بھی انگلش کا رنگ نمایاں ہے۔

فوزیہ ناصر احمد سمجھتی ہیں کہ آرڈر دینے والے کی خواہشات کا احترام کیا جانا سب سے ضروری ہے تاکہ ایک بار کھانے والا دوبارہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔

اگر کھانے والے کو اس کے برگر کی قیمت میں اعلی قسم کا برگر ملے گا تب ہی وہ دوسروں کو برگر مینیا کے بارے میں بتائے گا یہی وجہ ہے کہ نہ تو اُن کے برگر کی پیکنگ پر کوئی دکھاوے کا خرچہ کیا جاتا ہے نہ ہی وہ سائیڈز ڈال کر قیمت بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

ٹیم نیوز تھری سکسٹی نے برگر مینیا سے برگر کھایا تو یقین نہیں آیا کہ ایک خاتون صحافی نے اپنی ملازت کے ساتھ یہ کام شروع کیا ہے۔ بلکہ ایسا لگا کہ کوئی ماہر فاسٹ فوڈ یہ برگر بنا رہا ہو۔

اُن کے بنائے ہوئے برگرز حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوتے ہیں اور تازہ بھی۔

برگر مینیا کے ایک بھی فلے میں غیر معیاری اجزا نہ تو شامل کیے جاتے ہیں نہ ہی کوئی کیمیکل استعمال ہوتاہے۔

فوزیہ ناصر کا کہنا ہے کہ وہ صرف برگرز ہی بناتی ہیں لہذا اُن کی توجہ کسی اور چیز میں نہیں بٹتی ہے۔

فوزیہ ناصر کے معاملے میں وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ  ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔

اِن حالات میں فوزیہ نے ضرورت پڑنے پر جس طرح برگر مینیا کو دریافت کیا وہ یقیناً حالات کے مارے دیگر صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

متعلقہ تحاریر