مالکان کے حق میں متحد پی بی اے ملازمین کے معاملے میں منقسم کیوں؟

 کرونا کی وبا اور اُس سے قبل چینلز کو ریگولرائز کرنے کے حکومتی اقدامات کے بعد کئی میڈیا مالکان نے آمدنی کم ہوجانے کا بہانہ بنا کر اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کئی کئی گنا کٹوتی شروع کی لیکن پی بی اے خاموش رہی۔

پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے زرائع ابلاغ کے بڑے ادارے جنگ گروپ کے زیرحراست مالک میر شکیل الرحمان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پی بی اے نے سنیچر کے روز ایک اعلامیہ جاری کیا تھاجس میں ریاست سے 7 ماہ سے زیرحراست میر شکیل الرحمان کے معاملے پر غور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

لیکن یہ تنظیم کبھی اپنے اداروں میں کام کرنے والے کارکنان کے مسائل پر کبھی اس طرح کے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتی ہے۔

پی بی اے میڈیا کے ایک بڑے نام کی نظربندی کے خلاف اکٹھا تو ہوگئی ہے لیکن ٹی وی چینلز کے ملازمین کے خلاف حکومتی یا غیر حکومتی اقدامات پر کبھی آواز بلند نہیں کرتی ہے۔

آواز بلند کرنا تو دور مختلف چینلز نے گذشتہ چند سالوں کے دوران سیکڑوں کارکنان کو بغیر کسی نوٹس کے برطرف کر دیا ہے۔

ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کارکنان کو برطرفی سے قبل کئی مہینوں تک تنخواہ کے بغیر کام کرنا پڑا تھا۔

 کرونا کی وبا اور اُس سے قبل چینلز کو ریگولرائز کرنے کے حکومتی اقدامات کے بعد کئی میڈیا مالکان نے آمدنی کم ہوجانے کا بہانہ بنا کر اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کئی کئی گنا کٹوتی شروع کی لیکن پی بی اے خاموش رہی۔

چند چینلز میں منظورِ نظر کارکنان یا بڑے اینکرز کے ساتھ کام کرنے والے عملے کی تنخواہوں میں دوبارہ اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن اُس پر پی بی اے کی جانب سے کبھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

بورڈ کے ممبران نے کبھی بھی صحافیوں کے حالات میں بہتری لانے یا فرائض کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔

میڈیا مالکان کی تنظیم نے کبھی بھی ملازمتوں سے فارغ  کیے جانے والے سیکڑوں ملازمین سے معافی مانگنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور نہ ہی برطرفی کا جواز پیش کیا۔

ایسوسی ایشن نے کبھی میڈیا ملازمین کے حوالے سے کوئی حکمت عملی تیار کرنے یا یکطرفہ پالیسی کی تعمیل کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔

نا ہی کبھی اُن کارکنان کی حوصلے افزائیکی ہے جو دورانِ ملازمت فرائض کی انجام دہی کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پی بی اے کو ملازمین سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ صرف میڈیا انڈسٹری کے بڑے ناموں کے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہے۔

صحافتی انجمنوں کا خیال ہے کہ یہ ایسوسی ایشن میڈیا کے بڑے ناموں کا ایک اتحاد ہے جس کا مقصد صرف اپنے مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کی مجلسِ عاملہ کے رکن ریاض سہیل نے میڈیا گروپ مالکان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا مالکان مشکل وقت میں کارکنوں کو تنہا چھوڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی بی اے میڈیا چینلز کے سربراہان کا ایک ادارہ ہے جو حال ہی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے بھی صحافیوں کے مسائل کبھی نہیں اٹھائے خواہ وہ پیشہ ورانہ ہوں یا مالی نوعیت کے۔

ریاض سہیل نے حوالہ دیا کہ اے آر وائی نیوز اور جیو نیوز جیسے چینلز سخت جنگ میں ملوث ہیں۔ لیکن جب ان کے مفادات کے تحفظ کی بات ہو تو وہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ”چینل کے مالکان ملازمین کے ساتھ سیمنٹ فیکٹری کے مالک کی طرح سلوک کرتے ہیں، یہ وہی ذہنیت ہے‘‘۔

ریاض سہیل نے مزید کہا کہ میر شکیل الرحمان کی نظربندی کے خلاف چینل کے ملازمین احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چینل کے مالک کی زندگی معمول پر واپس آنے پر ان کی وفاداری رائیگاں جائے گی۔

متعلقہ تحاریر