بجٹ منظوری کے دن تاجروں اور صنعت کاروں کے تحفظات

میاں زاہد حسین کے مطابق انہیں ملک بھر سے بجٹ سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں۔

وفاقی حکومت آج قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرانے جارہی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر میں بجٹ کو گروتھ اورینٹڈ اور بزنس فرینڈلی قرار دیا تھا لیکن تاجران اور دیگر کاروباری شخصیات نے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نئے بجٹ کو پنڈورا باکس قرار دے دیا ہے۔ نمائندہ نیوز 360 عبدالقادر منگریو نے بجٹ کے حوالے سے ملک کی اہم کاروباری شخصیت میاں زاہد حسین سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

میاں زاہد حسین نے نیوز 360 سے گفتگو میں کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کی بنیاد پر ہم نے اسے اسکی ظاہری صورت کے مطابق سمجھا تھا لیکن اب جو چیزیں سامنے آرہی ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ یکم جولائی سے آٹے اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ آٹے پر17 فیصد سیلز ٹیکس کے خلاف فلور ملز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کی کال دے کر وقتی طور پر واپس لے لی ہے۔ 17 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے آٹا 3 روپے فی کلو مہنگا ہوجائے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں موجود کالی بھیڑوں نے آٹے کے تھیلے کی قیمت 25 سے 30 روپے بڑھادی ہے۔ اس کے علاوہ آٹے پر ٹرن اوور ٹیکس 0.25 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں یکم جولائی سے مجموعی طور پر آٹا 5 روپے کلو مہنگا ہوجائے گا۔ اسی طرح بناسپتی گھی ایسوسی ایشن نے بھی یکم جولائی سے گھی 15سے20 روپے کلو مہنگا ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔

بجلی کی فی یونٹ قیمت 5 روپے بڑھنے کا امکان

میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ کی بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانے کی یقین دہانی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگی کیونکہ آئی ایم ایف سے جو معاملات چل رہے ہیں اس کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 5 روپے بڑھنے کا پورا پورا امکان ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو یقین دہانی کراچکی ہے کہ فی الحال بجٹ میں نہیں لیکن بعد میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی اور یہ معاملات آگے بڑھیں گے۔ ہوزری ملز نے بھی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں بجٹ کی مرحلہ وار منظوری جاری

بجٹ بہت بڑا پنڈورا باکس ہے

میاں زاہد حسین نے نیوز 360 سے گفتگو میں بتایا کہ انہیں ملک بھر سے بجٹ سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے 570 ارب روپے اضافی ریونیو جمع کرنے کی جو حکمت عملی بنائی ہے وہ ناقابل عمل ہے۔ 203A کے تحت وزیر خزانہ کی زیرسربراہی 3 رکنی کمیٹی کو گرفتاری کے اختیارات دینے پر تاجروں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ لوگوں کے پیغامات آرہے ہیں کہ بجٹ منظور ہوا تو کاروبار بند کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس بجٹ  کے نتیجے میں معیشت کا حجم بڑھنے کے بجائے لڑائی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ لگتا ہے وزیر خزانہ کو لوگ غلط مشورے دے رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ ہم وزیر خزانہ جیسی بردبار شخصیت کو ضائع نہ کردیں۔ وزیر خزانہ کو چاہیئے معیشت میں ایسی چیزیں لے کر آئیں جو پاکستان کے ماحول میں چل سکتی ہوں۔ بجٹ میں اسمال اینڈ میڈیم سیکٹر، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی حکمت عملی بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ چیزیں نوٹسز اور زبردستی کے ذریعے نہیں ہوں گی۔ یہ دوستانہ اقدامات کے ذریعے ہوں گی۔

نیب اور ایف بی آر کے نوٹسز معیشت کے لیے بڑا مسئلہ

میاں زاہد حسین  نے نیب اور ایف بی آر کے نوٹسز کو معیشت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیئے ہیں۔ نیوز 360 سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نیب کی وجہ سے سرمایہ باہر جارہا ہے۔ ہمارے لوگ ڈر رہے ہیں اور سرمایہ کاری کرنے سے کترارہے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان میں آپ کسی سے دوستی اور اس کے کاروبار میں معاونت کرکے تو ٹیکس لے سکتے ہیں لیکن زبردستی ایسا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم برآمد کنندگان اورغیر ملکی ترسیلات زر کی مزید حوصلہ افزائی کریں اور پبلک سیکٹر کے اداروں پر ضائع ہونے والا 600 یا 700 ارب روپیہ بچالیں تو آئی ایم ایف سے کسی بھی قسم کی شرائط کو منوا سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے نمبرز درست نہیں ہوں گے تو ہمیں آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے اور ان کی بات ماننا پڑے گی۔

گیس فیلڈ کی بندش کا پیشگی علم ہونے پر متبادل انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟

میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے حکومت گیس اور بجلی کے انڈسٹریل کنکشن لینے والوں کو ان کے بجلی اور گیس کے استعمال کے حساب سے ٹیکس نیٹ میں لائے۔ گیس بحران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کسی بھی مسئلے پر تاجروں کو اعتماد میں نہیں لیتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ سالانہ مرمت کے باعث گیس فیلڈز بند کیے جانے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا تو متبادل انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ اگر درآمدی گیس مہنگی مل رہی تھی تو لوگوں کو پہلے سے بتادیتے کہ فلاں سے فلاں تاریخ تک گیس مہنگی ملے گی۔

ایک سوال کے جواب میں میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اوپر تو وزیراعظم کے دباؤ پر عوام کو ریلیف دینے کے لیے پالیسی بنالی جاتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنے کا طریقہ کار نہیں ہے یا ہے تو بہت خراب ہے۔ جس کے باعث پالیسی پر عمل نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے گندم کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں 40 ہزار ٹن  گندم کی کمی کا سامنا ہے اور حکومت نے 30 ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب مارکیٹ میں لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمیں گندم کی 10 ہزار ٹن کمی کا سامنا ہے تو لوگ ذخیرہ اندوزی شروع کردیں گے۔ اب اگر ہر تاجر 10 کلو چوری گندم بھی روک لے تو مارکیٹ میں گندم کتنی کم پڑجائے گی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ 40 ہزار ٹن گندم کی ضرورت ہے تو 50 ہزار ٹن گندم منگوائے تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ گندم وافر مقدار میں ہے اور شارٹیج نہیں ہونے والی ہے ۔

میاں زاہد حسین نے وزیرخزانہ شوکت ترین، گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ تابش گوہر بیمار اداروں کو پیروں پر کھڑا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ قسمت سے ہمیں   جو اچھے لوگ  مل گئے ہیں انہیں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

متعلقہ تحاریر