ایم سی بی پر شریف فیملی کے لیے منی لانڈرنگ کا الزام

ایف آئی اے نے ایم سی بینک پر شریف فیملی کے لیے 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے میاں منشاء کے ایم سی بی بینک پر شریف فیملی کی رمضان شوگر ملز کے لیے 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔

ایف آئی اے کے لیگل نوٹس میں حیران انکشافات سامنے ہیں۔ لیگل نوٹس میں کہا ہے کہ شہباز شریف خاندان منی لانڈرنگ کا بینی فیشل رہا ہے۔ لیگل نوٹس کا مکمل متن صرف نیوز 360 پر ملاحظہ کریں۔

یہ بھی پڑھیے

آئندہ سال پاکستانی معیشت کے لیے ترقی کاسال ہوگا، فچ کی پیشگوئی

ایف آئی اے نے رمضان شوگر ملز کیس میں منی لانڈرنگ سے متعلق ایم سی بی بینک کے چیئرمین میاں منشا اور ایم سی بی بینک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمران مقبول کو لیگل نوٹس بھجوایا ہے۔ نوٹس کے مطابق  ایف آئی اے نے شوگر انکوائری کے دوران  25 ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ پکڑی ہے۔ جو بینک کے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی اور اس کے لیے رمضان شوگر ملز کے چپڑاسی اور کم آمدن والے ملازمین کے ناموں پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھولے گئے اور اس طرح سال 10 سال تک یعنی  2008 سے  2018 تک یہ بینک اکاؤنٹس  چلائے جا تے رہے۔ یوں رمضان شوگر ملز کے ڈائریکٹرز اور شہباز شریف اور ان کے خاندان کو فائدے پہنچائے گئے ۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ جعلی اکاؤنٹس اور اس سے فائدے اٹھانے والے کے خلاف اسٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے  تھی کیونکہ 25 ارب روپے کی ان ترسیلات کا ایک تھائی یعنی 8 ارب 40 کروڑ روپے کا شوگر ملز کے کاروبار سے کوئی لینا دینا ہے اور یہ لین دین ایم سی بی بینک کی لاہور اور چنیوٹ برانچز سے کیا جاتا رہا۔

دوم۔ تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ رمضان شوگر ملز کے چپڑاسیوں اور کم آمدن والے چھوٹے گریڈ کے ملازمین کے نام پر جو جعلی اکاؤنٹس ایم سی بی بینک میں کھولے گئے اس میں بینک کے ملازمین بھی شامل تھے اور خاص طور پر برانچ مینیجرز اور  دیگر بینک عہدیداران نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے شہباز شریف خاندان کے دباؤ پر یہ سب کیا اور انہوں نے معزز عدالت کو رضاکارانہ طور پر اس سلسلے میں حقائق سے آگاہ کیا اور اپنے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔

سوم۔ تاہم بینک کے اعلی عہدیداروں نے متعلقہ ثبوت کو منجمند کردیا اور ایم سی بی بینک کے متعلقہ برانچ مینیجرز نے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ جس میں

1۔ عاصم خان سوری، وائس پریزیڈنٹ ہیڈ آف اینٹی منی لانڈرنگ، کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ

2۔ اظہر محمود ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ ہیڈ آف ایل ای اے، کوآرڈینشن ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔

چہارم۔ ان دونوں نے متعلقہ برانچ مینجرز کو ہدایات دیں کہ وہ حقائق کو مسخ کریں اور چھپائیں۔ خاص طور یہ اکاؤنٹس کون چلاتا ہے، کیسے چلاتا ہے اور ان اکاؤنٹس سے متعلق ڈیجٹل ثبوت جان بوجھ کر نہ صرف پوشیدہ رکھیں بلکہ اس میں شہباز شریف خاندان کو اصل بینی فیشل ہونے سے متعلق ثبوت منظر عام پر کسی صورت نہ آنے دیں تاکہ اس خاندان کو قانون کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ متعلقہ بینک برانچ مینیجرز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انہیں ہدایات کی گئیں تھیں کہ وہ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے لیے دستیابی سے اجتناب کریں تاکہ اصل حقائق تک پہنچا نہ جا سکے اور اگر انہوں نے اس سلسلے میں عدالت کی معاونت کی تو ایم سی بی بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ایف آئی اے کے لیگل نوٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے اور یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ عاصم خان سوری،  وائس پریزیڈنٹ ہیڈ آف اینٹی منی لانڈرنگ، کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ اس تمام معاملے میں ایم سی بینک کی اعلی مینجمنٹ مکمل طور پر نہ صرف آگاہ تھی بلکہ انہیں کی آشیرباد بھی شامل تھا۔

پنجم۔ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کا سیکشن 25، واضح طور پر تمام مالیاتی اداروں بشمول بینکوں کو پابند کرتا ہے کہ منی لانڈرنگ کے معاملات میں ایف آئی اے سے بھرپور تعاون کریں اور اس سلسلے میں کسی بھی خلاف ضابطہ اقدام کو چھپانا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ششم۔ اس سلسلے میں قانونی تقاضے یہ ہیں کہ

اے۔ ایم سی بینک کی اعلی مینجمنٹ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی سرپرستی سے فوری طور پر علحیدگی اختیار کرے اور بینک کے متعلقہ افسران، بینک کے برانچ مینیجرز اور عہدیداروں پر اثر انداز ہونا بند کرے اور انہیں کارروائی کی دھمکیاں دینا بند کرے۔

بی۔ ایم سی بی بینک کی اعلی مینجمنٹ ایف اے آئی کی انکوائری میں شامل بینک افسران اور عہدیداروں کو نوکری سے برطرف کرنے، مستعفی ہو جانے، غائب ہو جانے، رضاکارانہ تعطیلات پر چلے جانے اور عہدے سے ہٹائے جانے کے اقدام سے باز رہے۔ کیونکہ ایم سی بی بینک نے اس سلسلے میں 10 سال میں 2008 سے 2018 تک جعلی اور بوگس بینک اکاؤنٹس سے متعلق کبھی کوئی مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی ایس ٹی آر جاری نہیں کی اور یہ اسٹیٹ بینک کے بنیادی قوانین کی ہی خلاف ورزی ہے۔

سی۔ اس تحقیقات کے سلسلے میں کسی بھی قسم کے ثبوت کو غائب کرنے سے باز رہے۔

ڈی۔ بینک کی اعلی مینجمنٹ کو ہدایات بھی کی گئی ہیں کہ ایم سی بی بینک کے تمام ملازمین میں یہ سرکلر جاری کرے اور ای میل کے ذریعے بھی ہدایت کرے وہ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کریں اور خاص طور پر بینک کے متعلقہ افسران اور بینک برانچ کے مینیجرز اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کے سیکشن 25 کے تحت ایف آئی اے کی معاونت کریں۔

ای۔ ایم سی بی بینک کے دو متعلقہ افسران کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی سیکشن 25 کے تحت کارروائی کی جائے۔

ایف۔ ایم سی بی بینک کی اعلی مینجمنٹ رمضان شوگر ملز اور اس کے ڈائریکٹرز اور اصل بینی فشرز کے خلاف اگر مزید معلومات، حقائق اور ثبوت ہیں تو انہیں خفیہ نہ رکھے اور اس سلسلے دیگر جعلی اکاؤنٹس بھی ہیں تو ان کے ثبوت بھی فراہم کیے جائیں اور انہیں بھی مخفی نہ رکھا جائے۔

ہشتم۔ ایف آئی اے ایم سی بی بینک کی جانب سے اس سلسلے میں فوری طور پر معاونت کرنے پر بھی مشکور ہوگی اور اگر اس سلسلے میں حقائق کو چھپایا گیا تو یہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 25 کی خلاف ورزی ہوگی اور ایف آئی اے اس سلسلے میں ثبوت ملنے پر کارروائی کرے گی۔

ہشتم۔ ایف آئی اے اس سلسلے میں بینک انتظامیہ اور اعلی مینجمنٹ سے بھرپور تعاون کی امید رکھتی ہے تاکہ منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ میں فتح حاصل ہو سکے۔

ایف آئی اے کے اس لیگل نوٹس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ اس سلسلے میں منظم طریقے سے کام کیا گیا اور واضح ثبوت ہیں کہ دس سال تک جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے مبینہ منی لانڈرنگ کی گئی اور اس میں ملوث بینک کے افسران، حکام اور بینک برانچ مینیجرز کس کے اشارے پر یہ تمام خدمات سرانجام دیتے رہے۔

ایف آئی اے کی ہدایات اور بینک انتظامیہ

ایف آئی اے نے ایم سی بی کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں اعلیٰ عہدیداروں کو فوری طور پر عہدے سے ہٹآ دیا جائے۔

تاہم ایم سی بی بینک نے ایف آئی اے کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جس کے بعد عاصم خان سوری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لیکن ایف آئی اے نے اس سلسلے میں کچھ خامیاں چھوڑ دی ہیں کیونکہ اس نے ایم سی بی کی کسی بھی برانچ کو سیل نہیں کیا ہے جو کہ تحقیقات میں پائے جانے والے غلط کاموں میں ملوث رہی ہے۔

اس کے علاوہ ایف آئی اے نے مشکوک اکاؤنٹس کا ریکارڈ فراہم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو نہیں لکھا بلکہ اس کے لیے ایم سی بی سے رابطہ کیا اور 2004 سے ڈیٹا مانگا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے منی لانڈرنگ کے کیس پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ حکومت ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ نکالنے کی کوشش کررہی ہے، تاہم ایف اے ٹی ایف ایجنسی یہ الزام بھی عائد کرسکتی ہے کہ جس ملک کا سابق وزیراعظم منی لانڈرنگ میں ملوث رہا اس ملک کو کیسے گرے لیسٹ سے نکال دیں۔

متعلقہ تحاریر