حمزہ شہباز سیاسی بصیرت میں مریم نواز سے بہتر

مرکزی رہنما کے حالیہ دورہ جنوبی پنجاب میں مختلف شخصیات مسلم لیگ (ن) میں شامل، حمزہ شہباز پارٹی عہدیداران کو متحرک کریں گے۔

پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے اتوار کو کہا کہ 2023 میں مسلم لیگ (ن) دوبارہ انتخابی کامیابی حاصل کرے گی۔ یہ بیان انہوں نے سابق صوبائی وزیر اقبال چنڑ کی رہائشگاہ پر ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نیب مقدمات میں عدالت کی جانب سے ضمانت ملنے پر رہا ہوچکے ہیں اور اب وہ پنجاب میں پارٹی کی تنظیمِ نو کے لیے متحرک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انتخابات 2023، مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ اصل امتحان

آج کل حمزہ شہباز ملتان اور جنوبی پنجاب کے دوسرے شہروں کا دورہ کرکے ناراض پارٹی رہنماؤں کو منانے کے ساتھ ساتھ دیگر پارٹی اراکین کو بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔

ایک تقریب کے دوران مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما سردار اختر گوپانگ نے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی اور پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے ملک اسحاق بچہ نے بھی حمزہ شہباز سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

چند ماہ قبل مریم نواز نے بھی جنوبی پنجاب کا دورہ کیا تھا اور یہاں پارٹی کو متحرک کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سیاسی تجزیہ کار حمزہ شہباز کے دورے کو زیادہ کامیاب قرار دے رہے ہیں۔

اس کی ممکنہ طور پر وجہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد سے مزاحمتی رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ قومی اداروں اور عدلیہ پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

نواز شریف کی صاحبزادی اور ان کی غیرموجودگی میں پارٹی امور کو چلانے والی مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز بھی اپنے والد کے سیاسی نظریات پر عمل پیرا ہیں۔

دوسری طرف شہباز شریف اپنی حلیم طبیعت اور مفاہمانہ انداز کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ شہباز شریف نے بارہا کوشش کی کہ کسی طرح نواز شریف کو مزاحمتی لب و لہجہ استعمال کرنے سے روک کر مقتدر اداروں کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرلیا جائے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

حمزہ شہباز بھی پارٹی میں اپنے والد کی مفاہمتی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے نہ صرف ناراض پارٹی رہنما بلکہ دیگر سیاسی رہنما بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہورہے ہیں۔

یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ملک کے سیاسی رہنما نواز شریف کے موجودہ سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ کسی صورت بھی مقتدر حلقوں کے ساتھ تصادم کے لیے تیار نہیں۔

متعلقہ تحاریر