قومی سلامتی مشیروں کی کانفرنس، بھارت کی نیک نیتی یا نئی چال؟

افغانستان کی صورتحال پر اگلے ماہ بھارت میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں پاکستان اور روس کے قومی سلامتی کے مشیروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

افغانستان کی صورتحال پر اگلے ماہ بھارت میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں پاکستان اور روس کے قومی سلامتی کے مشیروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ افغان تناظر میں یہ پہلی عالمی کانفرنس ہے جو کہ بھارت منعقد کروا رہا ہے۔

چین، ایران، تاجکستان اور ازبکستان کو بھی علاقائی کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے تاکہ جنگ زدہ افغانستان میں انسانی المیے، سیکیورٹی صورتحال اور طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی پاسداری سے متعلق بات کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

بھارتی نجی کمپنی ریٹائر ہونے والے فوجی افسران کو ملازمت دے گی

افغانستان اندھیرے میں ڈوبنے کا خدشہ

یہ کانفرنس نیشنل سیکیورٹی کونسل سیکرٹریٹ کے زیراہتمام کروائی جارہی ہے جس کی صدارت متوقع طور پر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کریں گے۔

کانفرنس نومبر کے دوسرے ہفتے میں ہوگی جس میں طالبان کو تاحال مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف روس نے 20 اکتوبر کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کو شرکت کی دعوت دی ہے جس میں بھارت بھی موجود ہوگا۔

دیکھنا ہوگا کہ اس کانفرنس میں پاکستان کیا کردار ادا کرتا ہے یا پاکستان کے قومی سلامتی مشیر معید یوسف اس میں شرکت بھی کرتے ہیں یا نہیں۔

رواں سال مئی کے مہینے میں بھی بھارت نے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی ایک کانفرنس میں معید یوسف کو مدعو کیا تھا لیکن نئی دہلی میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث وہ میٹنگ منعقد نہیں ہوسکی تھی۔

اس سے قبل 2016 میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے امرتسر گئے تھے لیکن اس کے بعد سے اب تک پاکستان کا کوئی حکومتی عہدیدار بھارت نہیں گیا۔

اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ افغانستان کے تناظر میں بھارت کے ارادے کیا ہیں؟ کیا وہ واقعی افغانستان میں امن اور استحکام چاہتا ہے یا کسی نئی بساط کے لیے راہ ہموار کرنے سے پہلے خطے کے دیگر ممالک کی پالیسی سمجھنا چاہتا ہے؟

یاد رہے کہ پچھلے ہفتے امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین بھارت کا دورہ کرکے جاچکی ہیں اور امریکی بحریہ کے چیف آف نیول آپریشنز بھی اپنے پانچ روزہ دورے کے لیے اس وقت بھارت میں موجود ہیں۔

متعلقہ تحاریر