ایلون مسک دنیا سے بھوک مٹانے کے لیے اسٹاک فروخت کرنے کو تیار

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے سی این این پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ صرف چند امیر ترین افراد کی ایک بار عطیہ کی گئی رقم کے ذریعے پوری دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے سی این این پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ صرف چند امیر ترین افراد کی ایک بار عطیہ کی گئی رقم کے ذریعے پوری دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوسکتا ہے، انہوں نے ایلون مسک کا نام بھی لیا تھا۔

ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک نے ٹوئٹر پر مذکورہ کمنٹس کے حوالے سے لکھا کہ اگر ورلڈ فوڈ پروگرام اس بات کی وضاحت کردے کہ کس طرح 6 بلین ڈالر سے دنیا میں بھوک ختم ہوجائے گی تو میں ابھی کے ابھی ٹیسلا کا اسٹاک فروخت کردوں۔

 

یہ بھی پڑھیے

ایلون مسک کی دولت کا صرف 2 فیصد دنیا سے بھوک کا خاتمہ کرسکتا ہے، رپورٹ

پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا

ایلون مسک کے اثاثوں کی کُل مالیت 300 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

سی این این کے پروگرام کنیکٹ دا ورلڈ میں گفتگو کرتے ہوئے بیسلی نے کہا تھا کہ ایلون مسک کے اثاثوں کا صرف 2 فیصد حصہ یعنی 6 بلین ڈالر 42 ملین افراد کی مدد کرسکتا ہے جو کہ موت کے بالکل قریب ہیں۔

ٹیک ٹائیکون کی ٹویٹس کا جواب دیتے ہوئے بیسلی نے کہا کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسا نظام موجود ہے کہ آپ کی رقم شفاف انداز میں خرچ کی جائے گی۔

انہوں نے مسک کو یہ پیشکش بھی کر ڈالی کہ آپ کی ٹیم اس کا جائزہ لینے کے لیے ہمارے ساتھ کام کرسکتی ہے تاکہ آپ بھی مطمئن رہیں۔

ڈیوڈ بیسلی نے کہا کہ چلیں بات کرتے ہیں، یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے مگر ہم نے بات نہ کی تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا، میں اگلی فلائٹ سے آپ کے پاس آ رہا ہوں، اگر آپ کو میری گفتگو سماعت پر گراں گزرے تو مجھے اٹھا کر باہر پھینک دیجیے گا۔

بیسلی کا موقف تھا کہ 6 بلین ڈالر سے نہ صرف بھوک کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے سیاسی و جغرافیائی عدم استحکام کو روکا جاسکے گا، ہجرت کو روکا جا سکے گا اور 42 ملین افراد جو کہ بھوک میں مبتلا ہیں ان کی مدد ہوگی۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہوسکیں گے۔

 

اس کے جواب میں ایلون مسک نے ایک اور ٹویٹ داغ دی، انہوں نے کہا کہ براہ مہربانی اپنی موجودہ اور آئندہ خرچ کی جانے والی رقم کی تفصیلات شائع کریں تاکہ لوگوں کو نظر آسکے کہ یہ پیسا جاتا کہاں ہے۔

متعلقہ تحاریر