2023 کے انتخابات اصلاحات کے ساتھ ہوں گے، وفاقی وزیر فواد چوہدری

سیاسی تجزیہ کاروں نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن نے ای وی ایم پر حکومت سے مک مکا کرلیا ہے،کیونکہ بل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مقصد الگے انتخابات کو شفاف بنانا اور تنازعات سے پاک بنانا ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن کا طریقہ کا پارلیمان نے طے کرنا ہے۔ ہم الیکشن کمشنر کو حوصلے برداشت کررہے ہیں۔ ای وی ایم کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے۔ وہ انتخابات بہترین انتخابات ہوں جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر ہوں گے۔ 2023 کے انتخابات اصلاحات کے ساتھ ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر میں فرق ہے۔ الیکشن کمیشن ایک انسٹیٹیوٹ ہے جبکہ الیکشن کمشنر ایک شخصیت ہیں۔ حکومت کو الیکشن کمشنر کے کردار پر تحفظات ہیں۔ آج کی پریس کانفرنس کا مین پرپز وہ یہ ہے کہ الیکشن کمشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق جو رپورٹ تیار کی اس میں جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں جو ڈیٹا تھا اس کو اس رپورٹ سے نکال دیا گیا۔ اور ایسے اعتراضات رپورٹ میں لگائے گئے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ فیصلہ کرچکے تھے ہم نے ای وی ایم کے خلاف رپورٹ دینی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مہنگائی، تجارتی خسارہ اور ڈالر کی اونچی اڑان اسٹاک مارکیٹ کو لے بیٹھی

نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں’کلائمیٹ ٹیکس‘ متعارف کرا دیا گیا

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک کمپنی جس کا نام اسمارٹ نیٹک ہے نے ایک پریزنٹیشن دی الیکشن کمیشن کو۔ اس میں انہوں نے مختلف ممالک کا جو ای وی ایم استعمال کررہے ہیں ، ان کا ڈیٹا الیکشن کمیش کے سامنے رکھا۔ اسمارٹ نیٹک نے فلپائن کی رپورٹ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 2007 کا جو الیکشن تھا پیپر بیسڈ الیکشن تھا ۔ پیپر بیسڈ الیکشن کا نتیجہ آنے میں 6 ہفتے لگےتھے۔ 2010 میں انہوں نے اپنا پہلا الیکشن ای وی ایم کے ذریعے کرایا۔ اور چند گھنٹوں میں ان کا رزلٹ سامنے آگیا، اور پھر 2019 میں انہوں نے اپنا دوبارہ الیکشن بھی ای وی ایم کے ذریعہ کرایا جس کا رزلٹ بھی چند گھنٹوں کے بعد آگیا۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 2007 کےالیکشن پر ٹرسٹ لیول 35 فیصد تھا، 2010 میں یہ ٹرسٹ لیول 75 فیصد ہو گیا اور 2019 میں یہ ٹرسٹ لیول بڑھ کر 89 فیصد ہوگیا۔ 2007 کے الیکشن کے خلاف جو پٹیشن درج ہوئیں وہ 1000 تھیں ، 2010 میں جو پٹیشنز فائل ہوئیں وہ صرف 59 تھیں جبکہ 2019 میں صرف 11 پٹیشنز فائل ہوئی تھیں۔ 2007 کے الیکشن میں 100 پریزائیڈنگ آفیسر جھگڑوں کے دوران مارے گئے جبکہ 2010 اور 2019 کے الیکشنز جو ای وی ایم کے ذریعے ہوئے ایک بھی پریزائیڈنگ آفیسر کی زندگی کام میں نہیں آئی ۔

وفاقی وزیر کہنا تھا کہ 2011 سے یہ بحث ہورہی ہے کہ ہم نے انتخابات کو شفاف بنانا ہے، اس کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اوپر جانا ضروری ہے۔ الیکشن کمشن نے 37 اعتراضات اٹھائے ہیں جن میں سے 10 اعتراضات ای وی ایم کے اوپر ہیں۔ جو اعتراضات اٹھائے گئے وہ بہت ہی بھونڈے اعتراضات تھے ۔

چیف الیکشن کمشنر پر الزام رکھتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں۔ ہر ادارےکا ایک کردار ہوتا ہے ۔ جو سیاست دان ہیں وہ بات کرسکتے ہیں ، مگر یہ نہیں ہوتا ہے کہ الیکشن کمشنر اپنے آپ کو ایک اپوزیشن کے طور پر پیش کرنا شروع کردیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں۔ ای وی ایم کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے جس قسم کی مہم چلائی جارہی ہے ، چیف الیکشن کمشنر کی مقصد کے تحت ان اصلاحات کے خلاف ہیں جو حکومت لانا چاہتی ہے۔

آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے تمام کے تمام متنازع رہے ہیں ، جو بندہ بھی ہارتا ہے وہ الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھا دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شیطان بھی دھرنا دے کر بیٹھ جائے گا تو ایک جانب مریم نواز بیٹھ جائیں گی ، ایک طرف شہباز شریف بیٹھ جائیں گے اور پیچھے بلاول بھٹو زرداری بیٹھ جائیں گے۔ اور سارے شیطان کے ساتھ مل کر تالیاں بجاشروع کردیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اپنی سوچ کو بڑا کریں ۔ پاکستان میں ہر شخص اس بات پر متفق ہے کہ ہمارے الیکشن نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ لیکن جب ہم اصلاحات کرنے جارہے ہیں ہر قدم پر آپ روڑے اٹکانے جارہے ہیں۔ آپ ہماری اصلاحات کو نہیں مانتے تو اپنی اصلاحات لے کر آجائیں ہم اس پر بحث کروا لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے قومی اسمبلی کی موجودہ اپوزیشن انتہائی نالائق بچوں پر مشتمل ہے۔ پی ٹی آئی تو 2016 سے ای وی ایم اور انتخابی اصلاحات کو سپورٹ کررہی ہے۔ اگر میں نہ مانے والی پالیسی پر چلا جائے گا تو لوگوں کو جمہوریت سے اعتبار اٹھ جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر کو مشورہ دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اپنے آپ کو تنازعات سے پاک کریں۔ اگر ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے تو استعفیٰ دیں اور سیاست میں آجائیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے حکمران جماعت ، حزب اختلاف کے اعتراضات کے باوجود ای وی ایم سمیت 33 سے زائد بل پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی جس کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا تھا

ان کا کہنا ہےکہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس 17 نومبر کو ہوا تھا اور اجلاس ہوئے 20 دن گزر گئے مگر نہ تو مسلم لیگ ن سپریم کورٹ میں گئی اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کوئی خاموش انڈر سٹینڈنگ ہو گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان انڈرسینڈنگ نہیں ہوئی پھر فواد چوہدری صاحب کی سپیچ سےایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت سے لڑنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو میدان میں اتار دیا ہے، یا چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر